• news

اتحادی حکومت کا پہلا بجٹ عوام دوست یا مزید مہنگائی کا عندیہ

اتحادی حکومت کا مالی سال 2024-25ءکا پہلا بجٹ بدھ کی شام اپوزیشن کے احتجاج‘ شورشرابے اور ہنگامہ آرائی کے دوران قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا۔ بجٹ اجلاس بدھ کی سہ پہر چار بجے طلب کیا گیا تھا مگر اتحادی جماعتوں میں جاری مشاورتی عمل کی طوالت‘ پیپلزپارٹی کے اجلاس میں شریک نہ ہونے کے فیصلے اور ایوان میں سنی اتحاد کونسل کے ارکان کی بلند آہنگ اور تسلسل کے ساتھ جاری رکھی گئی حکومت مخالف نعرہ بازی کے باعث اجلاس کی باضابطہ کارروائی تاخیر کا شکار ہوتی رہی۔ شام چھ بجے کے قریب نائب وزیراعظم محمد اسحاق ڈار اور دوسرے وفاقی وزراءپیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے مذاکرات بارآور ہونے پر پیپلزپارٹی کے ارکان کو منا کر ہاﺅس میں لائے تو سپیکر سردار ایاز صادق نے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو بجٹ تقریر پڑھنے کی دعوت دی جنہوں نے اپوزیشن بنچوں کے سخت شورشرابے میں تقریر کا آغاز کیا جبکہ انکی تقریر ختم ہونے تک پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے ہاﺅس کو مچھلی منڈی بنائے رکھا اور وہ بجٹ کی کاپیاں پھینکتے اور پھاڑتے ہوئے مسلسل ”گونوازگو“ ”گو شہبازگو“ کے نعرے لگاتے رہے جبکہ وزیراعظم شہبازشریف اور سپیکر قومی اسمبلی سمیت سرکاری بنچوں کے تمام ارکان ہیڈفون لگا کر وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر سنتے رہے۔ 
قوم کو توقع تھی کہ ملک کو درپیش کٹھن اقتصادی حالات کے تناظر میں اتحادی حکومت اپنا پہلا بجٹ عوام دوست بجٹ کے طور پر پیش کریگی مگر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اپنی بجٹ تقریر کے دوران یہ کہہ کر عوام کی توقعات کافور کر دیں کہ بجٹ کی تیاری میں آئی ایم ایف کی تجاویز کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ انکی جانب سے پیش کردہ 18.877 ارب روپے کے حجم اور 8500 ارب کے خسارے والے بجٹ میں عوام کے ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں پر جہاں مروجہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے‘ وہیں نئے ٹیکسوں کی بھی بھرمار کی گئی ہے۔ اگرچہ بجٹ میں گریڈ ایک سے گریڈ 16 تک کے وفاقی سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہوں میں 25 فیصد اور گریڈ 17 سے 22 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ کیا گیا ہے تاہم ان پر واجب الادا انکم ٹیکس کی شرح بڑھا کر ان کیلئے ریلیف ایک ہاتھ سے دیکر دوسرے ہاتھ سے واپس لے لیا گیا ہے۔ اسی طرح بجٹ میں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن میں پندرہ فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ ای او بی آئی کے بزرگ پنشنروں کو کسی قسم کا ریلیف دینے کا معاملہ یکسر نظرانداز کردیا گیا البتہ بجٹ میں مزدور کی کم از کم اجرت 37 ہزار روپے مقرر کرکے اس طبقہ کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بجٹ میں مختلف اشیائے ضرورت پر عائد کئے جانے والے جی ایس ٹی‘ لیوی اور دوسرے محصولات کی شرح میں اضافہ سے ملک میں مہنگائی کے نئے سونامی اٹھتے نظر آرہے ہیں۔ نتیجتاً تنخواہ دار طبقات تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے باوجود پس کر رہ جائیں گے۔ 
وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں وفاقی محکموں کی گریڈ ایک سے گریڈ 16 تک کی تمام خالی اسامیاں ختم کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے جس ملک میں بے روزگاری کی شرح مزید بڑھے گی اور بالخصوص ملازمت پیشہ مزدور طبقات کیلئے مزید اقتصادی مسائل پیدا ہونگے۔ بجٹ میں انکم ٹیکس کی شرح صرف نان فائلر اور لیٹ فائلر کیلئے ہی نہیں بڑھائی گئی بلکہ فائلرز کیلئے بھی ٹیکس شرح میں اضافہ کیا گیا ہے۔ بجٹ میں سارا زور ریونیو بڑھانے پر لگایا گیا ہے جس کیلئے نئے ٹیکس لگانے اور ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کے راستے نکالے گئے ہیں۔ 

ای پیپر-دی نیشن