منظم حکمت عملی چاہیے
ہمیں یہ سمجھنا ہوگاکہ آج کے جدید میڈیا کی دنیا میں سوشل میڈیا ایک بڑی طاقت بن کرسامنے آیاہے، بدقسمتی سے ہمارے یہاںایک منظم حکمت عملی کے تحت اس میڈیا کو داخلی منفی سرگرمیوں کی بنیاد پر چلایاجارہاہے۔ اس میں جہاں کچھ نادانی کا پہلوہے وہیں ہمارے مخالفین ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سوشل میڈیا اور نئی نسل کے ذریعے قومی وحدت اور داخلی استحکام کو غیرمستحکم کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیراہےں۔ اس وقت ہمیں تین محاذوں پر کام کرناہوگا، اول نئی نسل کو سیاسی وسماجی شعور دینا ہوگا کہ وہ اپنی آواز یا اظہار کیسے کریں اور کن باتوں کا خیال رکھیں جو مخالفین کو طاقت نہ دیں۔ دوئم ہمیں سائبرکرائم کے معاملات کو بھی سمجھنا ہوگاکہ ایسے امور جوہمیں تقسیم کررہے ہیں یا لوگوںمیں نفرت پیدا کررہے ہیں ان پر کسی طرح ایسے قوانین بنائے جائیں جو ہمیں اس صورتحال سے بہتر طورپر نمٹنے میںمدد دے سکیں۔ سوم اس ہائیبرڈجنگ سے نمٹنے کےلئے ہمیں اپنے تعلیمی اداروں اور بڑی درس گاہوں اور جامعات کو ہنگامی بنیادوں پر اپنی ترجیحات بنانا ہوگا۔ کیونکہ اگر ہم پڑھی لکھی نئی نسل سمیت اپنے مدارس کے بچوں اور بچیوں کو ان خطرات سے آگاہ کرسکیں اور ان کو ایک ایسا متبادل پلان دے سکیں جو ان کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کرسکے تو اس بحران سے بہتر انداز میں نمٹاجاسکتاہے۔
بنیادی طور پر یہ لڑائی اہل دانش اور تعلیمی وفکری محاذ پر لڑی جانی ہے، یہ بیانیے کی جنگ ہے اور اس میں رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد اور اداروں کا کردار بنیادی ہے اسی جنگ میں ہمیں ہرمذہب کے بڑے علمائے کرام کی بھی مدد درکارہے اور اگراس جنگ میں اہم مذہبی افراد یا قوتوں کو بھی یکجاکرسکیں تومسئلہ حل ہوسکتاہے۔ نیشنل ایکشن پلان جو قومی نصاب کا درجہ رکھتاہے اسے اورپیغام پاکستان جس میںمذہبی مسالک کے بڑے جید علمائے کرام نے مل کر انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف فتویٰ سمیت بڑا لائحہ عمل دیاہے اس کو بنیاد بناکر آگے بڑھنا ہوگا۔ ملک کے ادیب، دانشور، شاعر،مصنفین، استاد، علمائے کرام اور فن کاروں سمیت نئی نسل کو اس جنگ میں ایک بڑے حصہ دار کے طور پر اپنا کردار ادا کرناہے لیکن ریاستی اور حکومتی سطح پر ان فریقین کو اس جنگ میں حصہ دار بنانے کی حکمت عملی بھی نظرآنی چاہیے وگرنہ محض لفاظی سے یہ جنگ نہیں جیتی جاسکے گی۔
ریاست کو ان امور سے نمٹنے کےلئے پہلے سے موجود قوانین اور پالیسیوں کا جائزہ لیناچاہیے۔ قانون سازی یا پالیسی میں تبدیلی یا نئی پالیسی یا قانون سازی کی ضرورت ہے۔ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ہمیں بقول آرمی چیف غیرمعمولی صورتحال کا سامناہے توپھر اس صورتحال سے نمٹنے کےلئے غیرمعمولی اقدامات اور کڑوی گولیوں کی بھی ضرورت ہے۔ اس کام میں سیاسی ومذہبی جماعتوں، میڈیا اور سول سوسائٹی سمیت معاشرے میںموجود اہل دانش، شاعر،ادیب،صحافی، مصنفین، علمائے کرام اور اساتذہ سب کو جوڑنا ہوگا اور ان کو ایک نئے بیانیے کی جنگ میں مضبوط پیمانوں پر حصہ دار بنانا ہوگا۔ یہ سمجھنا ہوگاکہ خارجی سطح پر جو مسائل یا سازشیں ہیں ان کا حقیقی مقابلہ اسی صورت میں ممکن ہوگاجب ہم داخلی محاذ پرموجود اپنے مسائل، فکری مغالطوں اور تضادات پر مبنی پالیسیوں سے گریز کریں گے۔
حکومت اور حکومتی اداروں کی سطح پر اس جنگ سے نمٹنے کا واضح اور شفاف پروگرام سب کو نظربھی آنا چاہیے۔ ہر فریق اس جنگ میں کیسے موثرکردار اداکرسکتاہے اس کا احساس حکومتی پالیسی اور عملدرآمد کے نظام میںموجود ہونا چاہیے۔ اگر ریاستی وحکومتی ادارے نئی نسل کو ترقی کی بنیاد بناکر اس جنگ میں ایک بڑے سفیر کے طور پر استعمال کریں اور ان کی تربیت سمیت ان کو ایسے مواقع فراہم کریں جہاں وہ خود بطور سفیر اس جنگ میں ایک سپاہی کے طور پر کچھ کرسکیں تویہ امرکئی طرح کی بغاوتوں کو کمزورکرنے یا ختم کرنے میںمعاون ثابت ہوگا مگر ان سب کےلئے ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ اور سیاسی قیادت درکارہے جو اس جنگ کی قیادت بھی کرے اور دوسروں کو بھی اس جنگ میں حصہ دار بنائے کیونکہ سیاسی قیادت کے بغیریہ جنگ جیتناممکن نہیں اوریہ جنگ محض فوج کی نہیں بلکہ پاکستان کی ہے اور اسی میں قومی ریاستی بقا اور داخلی استحکام مضمرہے۔
بلاشبہ وطن عزیز کی تیزرفتار ترقی ومسائل کا بہتر استعمال کرنے میں پوشیدہ ہے۔ قدرت نے انتہائی فیاضی سے کام لیتے ہوئے وطن عزیز کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک کی صف میں شامل ہے جہاں چار موسم اور بارہ گھنٹے سورج کی روشنی میسرہے ان وسائل سے عہدہ برآہونے کےلئے قومی اتفاق رائے، قومی جرات اور سنجیدہ طرز فکرکی ضرورت ہے جس سے توانائی کے بحران کو حل کیاجاسکتاہے۔
جنوبی ایشیا کے طول وعرض پر پاکستان اللہ عزوجل کی تخلیق کا ایک کرشمہ ہے۔ پاکستان ایک جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے نہ صرف اپنے خطے میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے بلکہ عالمی برادری میں بھی پاکستان اپنی مثال نہیں رکھتا۔ پاکستان کو اس وقت جہاں دہشت گردی اور معاشی بحران کا سامناہے، وہاں پاکستان کو اپنے ابدی دشمن بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کا بھی مسلسل سامناکرناپڑرہاہے۔ پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردی کے مسئلے پر قابو پانے میں کامیابی کے بہت قریب ہے لیکن آبی جارحیت کے خلاف جنگ بھی اہم ہے ہمیں ہرصورت ایک بدنیت اورمکار پڑوسی کامقابلہ کرناہے اور اس مسئلے سے نبردآزماہونے کےلئے کچھ اقدامات کرناہونگے۔
پاکستان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور پینے کے پانی کی قلت سے لے کرغذائی اجناس کی پیداوار تک ہمارے سارے مسائل پانی کے بحران سے وابستہ ہےں عقل کا تقاضاتو یہ ہے کہ جہاںکسی چیز کی قلت ہو وہاں انتہائی کفایت شعاری اور قناعت کا مظاہرہ کیاجانا چاہیے اور اس کےلئے سوچ وبچار کرکے منصوبہ بندی کی جائے جس سے ہم ابھی تک قاصر ہیں۔