قربانی کے مسائل (۱)
مخصوص ایام میں رضائے الٰہی کے لیے جانور کو ذبح کرنا قربانی ہے۔ قربانی ہر عاقل ، بالغ ، مقیم ، آزاد اور صاحب نصاب مرد اور عورت پر فرض ہے۔ صاحب نصاب وہ شخص ہو گا جس کے پاس حاجات اصلیہ کے علاوہ ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولے چاندی یا اس کے برابر رقم موجود ہو۔ قربانی کے لیے صاحب نصاب ہونا شرط ہے خواہ اس پر سال گزرا ہو یا نہ گزرا ہو۔ اسلام میں قربانی کے لیے 10 ، 11 ،12 ذی الحجہ کے تین دن مختص کیے گئے ہیں ان تین ایام کے علاوہ کی جانے والی قربانی جائز نہیں۔
عید کی نماز سے قبل قربانی کرنا جائز نہیں۔ اگر کسی نے نماز عید سے پہلے قربانی کی تو وہ قربانی نہ ہو گی اس پر دوبارہ قربانی واجب ہے۔ ایسے دیہات جہاں عید کی نماز نہیں ہوتی وہاں نماز فجر کے بعد قربانی جائز ہے لیکن وہاں بھی قربانی سورج طلوع ہونے کے بعد کی جائے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کی تو اس نے اپنے لیے کی۔ (یعنی گوشت کھانے کے لیے ) اور جس نے نماز بعد قربانی کی اس کی قربانی ہو گی اور اس نے مسلمانوں کے طریقے کو پا لیا۔(بخاری )۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مجھے یوم الاضحی کا حکم دیا گیا اس دن کوخدا نے امت کے لیے عید بنایا۔ ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ میرے پاس فیحہ( ایسا جانور جو کسی دوسرے نے اسے لے دیا ہوکہ وہ کچھ دن اس کا دودھ دوہے اورپھر اسے مالک کو واپس کر دے) کے سوا کوئی جانور نہیں تو میں اس کی قربانی کر سکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ ہاں تم اپنے بال ناخن اور مونچھیں اور موئے زیر ناف کو مونڈو۔ اسی میں تمہاری قربانی ہو جائے گی یعنی جس کے پاس قربانی کی گنجائش نہ ہو اسے ان چیزوں کے کرنے سے قربانی کا ثواب مل جائے گا۔ (ابوداﺅد)اسی طرح سفر کی حالت میں قربانی واجب نہیں۔ اگر مسافر قربانی کر لیتا ہے تو اس کی قربانی ہو جائے گی۔اگر کوئی شخص اپنی طرف سے قربانی کر نے کے بعد اپنے فوت شدہ رشتہ داروں اور بزرگان دین کے ایصال ثواب کے لیے قربانی دینا چاہے تو یہ جائز ہے اور اچھا عمل ہے۔ اگر کوئی شخص حضورنبی کریم کی طرف سے قربانی دے تو یہ افضل اور سعادت کا باعث ہے۔ اللہ تعالی آپ کی نسبت کی وجہ سے اس کی قربانی کو بھی شرف قبولیت سے نوازے گا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ حضور نبی کریم ﷺ کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھے۔