جمعة المبارک ‘ 6 ذو الحج 1445ھ ‘ 14 جون 2024
قومی اسمبلی بجٹ اجلاس میں وہی احتجاج شور شرابا
اب یہ تو ایک روایت ہی بن گئی ہے کہ جب بھی بجٹ اجلاس ہوتا ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے شور و غل و ہنگامہ آرائی کو فرض عین سمجھ کر خوب ہلہ گلہ کیا جاتا ہے۔ حکومتی ارکان اور اسپیکر لاکھ کوشش کریں ایسا نہ ہو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ امن سے کوئی بجٹ اجلاس منعقد ہوا ہو۔ کبھی کبھار تو بات شور و غل سے بڑھ کر ہاتھا پائی تک جا پہنچتی ہے۔ سچ کہیں تو اگر یہ ہنگامہ آرائی نہ ہو تو شاید ہمیں بھی بجٹ کی بور تقریر سننے اور دیکھنے میں مزہ نہ آئے۔ قومی اسمبلی کی صورتحال دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سڑک ہو یا ایوان ہر جگہ ہماری سائیکی یکساں ہے۔ ہم چین سے نہیں بیٹھتے اور نہ کسی کو بییٹھنے دیتے ہیں۔
پاویں ہووے لڑائی پاویں ہووے جھگڑا
میں تو ڈالوں گی آج ساری رات بھنگڑا
والا ماحول پیدا کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ شاید اس طرح ہماری بے چین طبیعت کو سکون ملتا ہے۔ آفرین ہے ہمارے موجودہ اور سابق تمام وزرائے خزانہ پر جو اس شور شرابے میں بھی تقریر جاری رکھتے ہیں۔ ورنہ عام آدمی تو صبر و ضبط کا دامن چھوڑ دے۔ یوں بجٹ تقریر نہ اپوزیشن سنتی ہے نہ حکومتی ارکان کو پتہ چلتا ہے کہ کیا کہا جا رہا ہے۔ سب سے زیادہ شامت بجٹ کی کاپیوں کی آتی ہے۔ انہیں پھاڑ کر جہاز بنا کر اڑائے جاتے ہیں گولے بنا کر پھینکے جاتے ہیں جیسے سکول کے بچے کرتے ہیں یا پھر ان کتابوں سے ڈیسک بجا بجا کر کان پھاڑ دینے والا شور پیدا کیا جاتا ہے۔ ان دستاویزات پر تو غالب کا شعر یاد آتا ہے
حیف اس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب
جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا
یوں نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے والے ماحول میں گزشتہ روز بھی ہمارا بجٹ پیش ہوا۔ اب یہ عوام ہی بتائیں گے کہ وہ کیسا تھا۔ کیونکہ سارا اثر تو انہی پر پڑنا ہوتا ہے۔
بلاول کا بجٹ اجلاس میں شرکت سے انکار بعدازاں حکومتی ارکان منا کر لے آئے۔
یہ تو پیپلز پارٹی کی کڑوا کڑوا تھوتھو اور میٹھا میٹھا ہپ ہپ“ والی پالیسی ہی نظر آتی ہے کہ شامل گناہ بھی ہے اور پارسائی کا دعویٰ بھی۔ حکومت کی اتحادی بھی ہے اعلیٰ قانونی عہدے بھی حاصل کئے ہیں اور خود کو ہر حکومتی اقدام سے بری الذمہ بھی قرار دیتی ہے۔ یہ ہوتی ہے سیاست اسے کہتے ہیں زرداریوں کی فراست۔ یہی وجہ ہے کہ صدر آصف زرداری کو اپنے پرائے سب زیرک سیاستدان بھی کہتے ہیں۔ زیرک ان کی سیاست اور سفاکیت ان کی مسکراہٹ کے حوالے سے ان پر ہی سجتی ہے۔ ان کی نسبت ان کے فرزند دلبند بلاول ابھی واقعی طفل مکتب نظر آتے ہیں۔ صدر مملکت کہتے ہیں بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ بلاول کہتے ہیں میں بجٹ اجلاس میں شرکت نہیں کر رہا گھر جا رہا ہوں۔ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ گھر جا کر تقریر ٹی وی پر دیکھوں اور سنوں گا۔ مگر دیکھ لیں
کتنا شریں سوال تھا میرا
کتنا روکھا جواب پایا ہے
بے شک سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا مگر سر میں دماغ تو ہوتا ہے۔ کاسہ سر کسی کا خالی ہو تو وہ سیاست کیا خاک کرے گا۔ گزشتہ روز بجٹ اجلاس میں اطلاعات کے مطابق پیپلز پارٹی کے 3 ارکان نے شرکت کرنی تھیی مگر بعد میں حکومتی ارکان نے جا کر بلاول کو منا لیا اور پیپلز پارٹی کے ارکان نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔ چلیں اس سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ فی الحال ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اس سے کمزور حکومت کو بھی تسلی ہوتی ہو گی کہ اتحادی ساتھ ہیں۔ اس پر کہتے ہیں ”دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہیے“ اس طرح متحد ہونے کا تاثر ملتا ہے اور مل جل کر حکومت کے مزے لوٹنے کا موقع بھی ملتا رہے۔
بانی پی ٹی آئی سے رابطہ نہیں، جنگ ہے تو پھر جنگ ہی سہی۔ فضل الرحمن
اقتدار سے فراغت کے بعد بھی مولانا فضل الرحمن نے مصروفیت کا اچھا بہانہ تلاش کر لیا ہے۔ وہ پوری طاقت سے موجودہ حکومت کے خلاف ہر جگہ طبل جنگ بجاتے پھرتے ہیں۔ مگر لگتا ہے فی الحال بیل منڈھے نہیں چڑھ رہی۔ چاروں صوبوں میں وہ اتحادی تلاش کر رہے ہیں۔ چند روز قبل ان کے پی ٹی آئی والوں کے ساتھ خوب راز و نیاز جاری تھے۔ کبھی وہ ان کے در دولت پر جاتے بمع وفد کے اور کبھی اسد قیصر اپنی پارٹی کے رہنماﺅں کے ساتھ مولانا کے غریب خانے تشریف لاتے اور ”من تو شدم تو من شدی“ کی تصویر بننے کی کوشش ہر دو طرف سے جاری تھی۔ لگ یہی رہا تھا کہ جلد ہی پی ٹی آئی اور جے یو آئی ایک ہی پیج پر آ جائیں گے۔ اسد قیصر اور مولانا کے بیانات سے تو یہی لگ رہا تھا کہ حکومت کیخلاف دونوں مل کر اپنے بانی ساتھیوں کے ساتھ جلد ہی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے میدان میں اتریں گے۔ مگر نجانے پھر کیا ہوا۔ اتفاق رائے کہیں غائب ہو گیا۔ ساری پیش رفت نجانے کس کھو کھاتے میں چلی گئی۔ اب مولانا کہہ رہے ہیں کہ ان کا پی ٹی آئی کے بانی کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے تو پھر یہ آنیاں جانیاں کیوں اور کیسی تھیں۔ بہرحال اس کے باوجود مولانا اپنی جنگ والی حکمت عملی ترک کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے اور اب تو ببانگ دہل وہ جنگ ہے تو پھر جنگ سہی کا کہہ کر بتا رہے ہیں کہ اب شاید پی ٹی آئی والے اپنی علیحدہ اور جے یو آئی والے اپنی علیحدہ سیاسی لڑائی لڑیں گے اور دونوں کا ہدف بہرحال حکومت ہی ہو گی جو سیاسی گرداب سے نکلنے میں کیسے کامیاب ہو گی یہ سین ابھی دیکھنا باقی ہے۔
پاکستان امن کا خواہاں ہے۔ مودی مذاکرات کریں، فاروق عبداللہ
یہ فاروق عبداللہ کہہ لیں یا دوسرے بھارت نواز کشمیری سیاستدانوں کی پرانی عادت ہے کہ جب وہ حکومت میں ہوں تو انہیں بھارت سے زیادہ پیارا راج دلارا اور کوئی نہیں ہوتا وہ بے شرمی کی حد تک سرینگر تا دہلی جے ہند کے نعرے لگاتے اپنے لیے حکومت کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ جوں ہی وہ زیر عتاب آتے ہیں بھارت کی نظر میں ان بکاﺅمال کی ہر کوئی حیثیت نہیں رہتی وہ ان کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے تو انہیں اچانک پاکستان کی یاد ستاتی ہے اور وہ بھارت پر دباﺅ ڈالنے کے لیے پاکستان کا نام لیتے ہیں۔ یہی کچھ اب بھی وہ کر رہے ہیں اس پر بھارتی وزیر داخلہ نے پھپتی کسی ہے کہ یہ فاروق عبداللہ کی عادت ہے اور وہ پاکستان کی زبان بولتے ہیں۔ یہ ہوتی ہے کرائے کے لوگوں کی اوقات وطن فروشوں کی حیثیت وہ ہر جگہ بے حیثیت ہی رہتے ہیں۔ اب فاروق عبداللہ کو اندازہ ہو گیا ہے کہ مودی حکومت ریاست جموں و کشمیر میں اپنی من مانی حکومت لانے کے چکر میں تو شیخ جی کشمیریوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اب نئی بیان بازی کر رہے ہیں۔ یہ سب جانتے ہیں پاکستان نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی بات کی ہے۔ بھارتی حکمران اس سے بھاگتے رہے ہیں۔ مودی تو حقیقت میں باتوں سے زیادہ لاتوں کی زبان سمجھتے ہیں کیا ہی اچھا ہوتا کشمیر کی سیاسی جماعتیں بھی مجاہدوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتیں تو بھارت کو بات چیت پر مجبور کیا جا سکتا تھا۔ مگر سیاسی جماعتوں کو تو بس دہلی کی خوشنودی میں لگے رہتے ہیں ان کی ساری توجہ بس حکومت حاصل کرنے پر رہتی ہے۔