ہفتہ ‘ 8 ذو الحج 1445ھ ‘ 15 جون 2024
مذاکرات کا دوسرا دور مکمل، پیپلز پارٹی کے شکوے نون لیگ کی تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی۔
قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کیا تو پیپلز پارٹی روٹھی روٹھی نظر آئی۔ان کو منانے کے لیے ڈپٹی وزیراعظم کو جانا پڑا،پیپلز پارٹی اتنی بھی نہیں روٹھی تھی کہ اجلاس کا دل و جان سے بائیکاٹ کر دیتی۔اجلاس سے دور رہنا ہوتا تو اس کے ارکان ایوان کے ارد گرد گھوم نہ رہے ہوتے جن کو اسحاق ڈار گھیر گھار کر ایوان میں لانے میں کامیاب ہوگئے۔وہی مشق پیپلز پارٹی کی طرف سے پنجاب میں بھی دہرائی گئی۔اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں خوب ہلا گلا کیا تھا۔پنجاب اسمبلی میں صورتحال ہاتھا پائی تک پہنچ گئی اور کٹ کٹا پے کی نوبت آیا ہی چاہتی تھی۔پیپلز پارٹی اس کی زد میں آ سکتی تھی لیکن اپنی تیوری چڑھانے والی ناراضی کی وجہ سے بال بال بچ گئی۔شہباز شریف وزیراعظم بنے تو ان کو ہر طرف ہریالی ہی ہریالی نظر آ رہی تھی کہ پرانے اتحادی ہیں پرانا اعتماد ہے پرانا پیار ہے اگلے پانچ سال مل جل کے پورے کرلیں گے لیکن اب منانے کے جھنجٹ میں پڑے ہوئے ہیں۔ بجٹ کے مواقع پر پی پی پی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئی۔اسحاق ڈار پی پی کے چند ارکان کو اجلاس میں لانے میں کامیاب ہو گئے یہ پیپلز پارٹی کی طرف سے اجلاس میں علامتی شرکت تھی جب کہ ایک روز قبل اس پارٹی کا ملامتی رویہ یعنی حکومت کو ملامت کرنے کا، جس کا خود اٹوٹ حصہ ہیں، سامنے آ چکا تھا۔اب جشن مناو کی طرز پریہ ” اتحادی مناو حکومت“ بن چکی ہے۔ مولانا فضل الرحمن پرانے اتحادی ہیں شہباز شریف بجٹ منظور کروانے کے لیے ان کو منانے ان کے در دولت پر حاضری دے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا اچانک سے عین بجٹ کے موقع پر روٹھ جانا کچھ لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ پیپلز پارٹی ہی تھی جس نے مسلم لیگ نون سے کہا تھا قدم بڑھاو ہم تمہارے ساتھ ہیں، بالکل نہ گھبراو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔وزارتیں آپس میں بانٹیں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ہمیں کوئی وزارت نہیں چاہیے ہم تمہارے ساتھ ہیں،حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے ہم تمہارے ساتھ ہیں۔دو گورنر بنوا لئے، زرداری صاحب ایوان صدر کے مکین ہو گئے کئی پارلیمانی کمیٹیوں پر ہاتھ صاف کر لئے پھر بھی کہا جاتا ہے حکومت میں شامل نہیں۔
توانائی بچاو مہم بجٹ میں آٹھ کروڑ 80 لاکھ پرانے پنکھے تبدیل کرنے کا فیصلہ۔
ماضی قریب کی کسی حکومت نے بجلی کی بچت کے لیے بلب بھی تبدیل کرانے کی مہم شروع کی تھی۔ نئے ایل ای ڈی بلب کہاں کہاں روشنی پھیلا کر فیوز ہو گئے کچھ پتہ نہیں۔بلب سکیم کا انجام دو روپے کی روٹی جیسا ہوا۔ اب حکومت کی طرف سے 1500 روپے میں ایک پنکھا ان صارفین کو دیا جائے گا جن کے گھروں میں پرانے پنکھے لگے ہوئے ہیں اور وہ زیادہ بجلی کھینچتے ہیں۔جن کا بل صارفین جیسے تیسے ادا کر رہے ہیں۔ اب ان کے لیے ایک سہولت فراہم کر دی گئی ہے۔ نیا پنکھا صرف 1500 روپے میں، کباڑ میں پرانا پنکھا کاپر تار کی وجہ سے اتنے میں ہی بکے گا۔ پنکھا چلانے کے لیے بجلی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت چھوٹی سی سلیٹ جتنی سولر پلیٹ بھی مہیا کر دے ورنہ جس قدر لوڈ شیڈنگ ہے ہو سکتا ہے پنکھا اب جھومتا اور سردیوں میں گھومتا نظر آئے۔گرمیوں کے لیے حکومت دستی پنکھے فراہم کر سکتی ہے۔ایسا پنکھا گاوں سے آئی ایک خاتون نے شہر سے خریدا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے آ کے دکاندار سے شکایت کی کہ یہ تو ایک دو دفعہ جھلنے سے ٹوٹ گیا۔دکاندار نے پوچھا پنکھا آپ نے جھلایا کیسے تھا، جیسے پنکھا جھلتے ہیں ویسے۔خاتون نے بتا دیا۔ دکاندار نے کہا نہیں بی بی نہیں آپ نے پنکھے کا غلط استعمال کیا۔ آپ نے پنکھا سامنے ساکت رکھ کے اپنے چہرے کو دائیں بائیں کرنا تھا ایسا کیا ہوتاتو پنکھا نہ ٹوٹتا۔
پاکستانی ٹیم کو امریکہ میں تلاش بسیار کے بعد کڑک چائےمل گئی۔
چائے میں پسند اپنی اپنی ،کڑک چائے کا مفہوم اور مطلب بھی اپنا اپنا ہے۔لمبا سفر کرنے والے ٹرک ڈرائیور تیز پتی بلکہ تیز ترین پتی اور کم میٹھے والی چائے کو کڑک چائے کہتے ہیں۔ یہ اتنی پتی ڈلواتے ہیں کہ اس چائے کا ڈبل ریٹ ہوتا ہے۔ یہی چائے عرف عام ہیں کڑک کہلاتی ہے لیکن کچھ ایسے شہزادے بھی ہیں جو آرڈر دیتے ہیں پتی پانی روک کے، دودھ میٹھا ٹھوک کے۔ان کی نظر میں یہی کڑک چائے ہوتی ہے۔ہماری ٹیم کے کھلاڑی ایسی ہی کڑک چائے پینے کے شوقین لگتے ہیں جنہوں نے ہوٹل انتظامیہ کو اس وقت وختہ ڈال دیا۔ جب چائے کا آرڈر سرو کیا گیا تو ان کے سامنے قہوہ رکھ دیا گیا۔کوئی اسے قہوہ کہتا ہے کوئی گرین ٹی کہتا ہے۔ یورپ مغرب اور برطانیہ میں اسی کو چائے کہا جاتا ہے۔ یہ بغیر میٹھے کے ہوتی ہے۔ہمارے ہاں اس کو چائے ہی نہیں سمجھا جاتا جس میں دودھ نہ ہو اور چینی نہ ہو۔ہمارے کھلاڑیوں کے سامنے گرین ٹی رکھی گئی وہ سر پکڑ کے بیٹھ گئے۔ ضد کرنے لگے ہم تو دودھ پتی ہی پئیں گے۔"میں تے ہونڈا ای لیساں"۔ ہوٹل انتظامیہ نے بہرحال دودھ پتی کا کسی چھوٹے موٹے ڈھابہ ٹائپ ریسٹورنٹ سے بندوبست کروا ہی دیا جس پر ہمارے ہونہار کھلاڑی کانوں تک راضی ہو گئے۔ان کی کارکردگی دیکھ کر تو لگتا ہےکھانے میں سری پائے اور کولڈ ڈرنک کی جگہ لسی پیتے ہونگے۔گراونڈ میں داخل ہوتے ہوئے سوٹے بھی لگا کر گئے ہوں۔ان چیزوں کا نشہ جادو کے سر چڑھنے کی طرح بولتا ہے۔نشئی کا بدن بیٹنگ کر رہا ہو باولنگ کر رہا ہو یا فیلڈنگ، بید مجنوں کی طرح لرزتا یعنی ڈولتا ہے۔پہلے امریکہ سے پھر انڈیا سے ہارے تو،توئے لعنت اور تبرے نے نشہ ہرن کر دیا۔اگلے میچ میں لگا کہ ڈرائیوروں والی کڑک چائے پی کے کھیلے ہیں۔ شروع میں ایسی کڑک چائے پلا دی جاتی ہے تو کارکردگی بہتر ہوتی۔دہی لسی روٹی اچار دیسی خوراکیں ہیں۔ ولایت گئے ہیں تو ولایتی کھانے کھائیں۔اگر وہ پسند نہیں تو دیسی چیزیں پوٹلیوں میں باندھ کر ساتھ لے جائیں۔خالص دودھ پتی پینی ہے تو بھینس وہیں سے خرید فرمائیں۔ایسے بخت مارے کبھی کبھی پاکستانیوں کو بھارت کی جیت کے لیے دعائیں کرنے پر بھی مجبور کر دیتے ہیں کہ بھارت فلاں ٹیم سے جیتے تو ہم اگلے مرحلے میں جا سکتے ہیں۔
لاہور میں بکرا واش سروس شروع۔
عید قربان سے قبل شہروں میں پارٹ ٹائم کاروبار شروع ہو جاتے ہیں۔ جگہ جگہ چارے کے سٹال لگے نظر آئیں گے سبز اور خشک ہر قسم کا چارہ گلی محلوں چوکوں چوراہوں میں بکنے لگتا ہے۔ گائیوں، بیلوں، بکری، بکروں کو سجانے سنوارنے کا سامان ٹل ٹلیاں ہار سنگھار کی فروخت شروع ہو جاتی ہے۔ اب کار سروس والوں نے بکرا واش کی سروس شروع کر دی ہے۔ بکری بکرے دنبے بھیڑ بھیڈو کو گرمی سے بچانے کے لیے نہلوانا ہے تو اس کا ریٹ کم ہے۔ سرف سے واش کرنے کے کچھ زیادہ پیسے ہیں۔ شیمپو کی کوالٹی پر منحصر ہے ، بہترین کوالٹی امپورٹڈ کا ریٹ ہائی ہے۔ کنڈیشنر کی صورت میں نرخ بالا نشیں ہو جاتے ہیں۔ شہروں، قصبات اور دیہات میں بکرے یعنی قربانی کے جانور قسطوں پر بھی ملتے ہیں۔ جدید دور ہے کچھ آئی ٹی ایکسپرٹ جانور ڈاون لوڈ کرنے کی تدبیریں بھی سوچ رہے ہیں۔ منڈیوں میں رضا کار صفائی کرنے والے اور والیاں بھی نظر آتی ہیں۔ یہ بھی بزنس پرسن ہیں۔ گوبر کی ”پاتھیاں“ اوپلے بناتے ہیں جو دیہات میں آجکل 5روپے کی ایک بکتی ہے۔ گاوں میں اوپلے ایندھن کیلئے استعمال ہوتے ہیں جبکہ شہروں میں حقے کے شوقین حقے میں آگ کیلئے بروئے کار لاتے ہیں۔