وفاقی وزیر خزانہ کی بعد از بجٹ پریس کانفرنس
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے تنخواہ دار طبقے کا احتجاج مسترد کردیا اور کہا ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگائے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اسلام آباد میں بعد از بجٹ پریس کانفرنس میں بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ پروگریسو ٹیکسیشن کی طرف جارہے ہیں، جس کی آمدنی زیادہ ہے اس پر زیادہ ٹیکس کا اصول اپنایا گیا ہے، نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح بڑھا کر 45 فیصد تک کی گئی ہے، اس اقدام کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ تین چار بار سوچے ضرور کہ نان فائلرز کی اصطلاح بھی پاکستان میں ہی ہے، ہم ملک سے نان فائلرز کو ختم کرنے جارہے ہیں۔ نان فائلرز کے لیے بزنس ٹیکس ٹرانزیکشن میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ دس فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح نا قابل قبول ہے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کو اگلے دو تین سال تک بڑھا کر 13 فیصد تک لے کر جانا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ڈیٹا موجود ہے کہ کس کے پاس کتنی گاڑیاں ہیں اور کون کتنا بل دیتا ہے۔ شہریوں کے لائف سٹائل کا سارا ڈیٹا ہمارے پاس موجود ہے۔ لائف سٹائل ڈیٹا جائزے کے لیے ٹیم بنائیں گے جو اسے چیک کریں گی۔ اس کے بعد فیلڈ ٹیم کو اس پر عمل درآمد کا کہیں گے، ٹیکس نیٹ میں آنا پڑے گا۔ اس موقع پر انھوں نے یہ بھی کہا کہ آئی ٹی سیکٹر میں نوجوانوں کو سہولیات فراہم کریں گے، ہمارے پاس پوری دنیا میں تیسرے بڑے فری لانسرز موجود ہیں، ہمیں نوکریاں نہیں دینی بلکہ بچے اور بچیاں گھر بیٹھ کے پیسے کما رہے ہیں اور اس میں آئی ٹی سیکٹر کے لیے ہم نے سب سے بڑی رقم مختص کی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کی باتوں کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ نوکریاں ختم کر کے عوام میں مزید مایوسی پھیلائی جارہی ہے۔ عام آدمی تو ماچس خرید نے پر بھی ٹیکس ادا کر رہا ہے اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ضرورت ہے۔ اشرافیہ کی اکثریت ایوانوں میں بیٹھی ہے جنھیں بجٹ میں ریلیف ہی ریلیف دیا گیا ہے جبکہ وفاقی بجٹ میں غریب عوام کو مزید کچلا گیا ہے۔ بہتر ہے کہ اشرافیہ کی مراعات سے کٹوتی کر کے عوام کو ریلیف دیا جائے ورنہ عوام بالخصوص نوجوان نسل بے روزگاری کی وجہ سے بے راہ روی کا شکار ہو کر چوری ڈاکے ڈالنے پر مجبور ہو گی۔ ملک میں آئی ٹی کے شعبہ پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی، جن کمپنیوں کے ذریعے فری لانسنگ ہو سکتی ہے وہ بھی حالات اور مہنگائی کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہیں۔ فری لانسنگ بے روزگاری کے خاتمے کا مستقل حل نہیں، بیرونی کمپنیاں پاکستانی کمپنیوں سے اس لیے رابطہ نہیں کرتیں کہ یہاں آئے روز نیٹ سسٹم کی خرابی یا سیاسی ایشوز پر انٹرنیٹ بند یا کئی کئی گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کرکے کام میں رکاوٹ ڈال دی جاتی ہے۔