خطبۂ حج: مظلوم فلسطینیوں کے لیے خصوصی دعا کرائی گئی
ایک لاکھ 60 ہزار پاکستانیوں سمیت 20 لاکھ سے زائد فرزندانِ توحید نے ہفتے کے روز مناسک حج کے رکن اعظم وقوف عرفات کی ادائیگی اور جانوروں کی قربانی کا فریضہ سرانجام دیا۔ اس موقع پر میدان عرفات میں روح پرور مناظر دیکھنے میں آئے اور اللہ اکبر کی صدائیں مسلسل گونجتی اور فضا کو معطر بناتی رہیں۔ سخت گرمی کے باوجود فرزندانِ توحید کے جذبۂ عقیدت و عبادت میں کوئی کمی نہیں ہوئی اور پورے خشوع و خضوع کے ساتھ وہ ارکانِ حج کی ادائیگی میں ہمہ تن مصروف رہے۔ میدان عرفات میں فرزندان توحید کے علاوہ دنیا بھر میں مسلمانوں نے براہِ راست نشریات کے ذریعے سنا اور دیکھا۔ مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ ماہر بن حمد بن محمد بن المعیقلی نے مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے اس امر کو اجاگر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو لوگوں کے لیے پسند کیا ہے، اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے، اے لوگو! مصیبتوں اور فساد سے دور رہو، اسلام کی تعلیم ہے کہ نہ کسی کو نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی خود نقصان اٹھاؤ۔خطبہ حج میں کہا گیا کہ کوئی کسی کو اذیت نہ پہنچائے، کسی کو اذیت پہنچانا گناہ کبیرہ ہے ، مومنوں کو تکلیف دینے والے کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔
خطبہ حج کے اختتام پر ڈاکٹر ماہر بن حمد نے فلسطین کے لیے خصوصی دعا بھی کرائی۔ بالخصوص فلسطینی بھائیوں کے لیے دعاکریں جن پرمصیبت برپا ہے۔ قرآن کہتا ہے جو ظلم کرتا ہے اس کی پکڑ ہوگی۔ شیخ المعیقلی نے کہا کہ دشمن کی شرانگیزی نے فلسطینیوں کا جینا محال کردیا، دشمن ارض فلسطین میں خونریزی اور فساد برپا کرنا چاہتا ہے، دشمن فلسطینیوں کے لوگوں تک اشیائے ضروری، غذائی امداد، دوائیاں اور کپڑے پہنچنے نہیں دے رہا۔دعا کے سب سے زیادہ مستحق اہل فلسطین ہیں جہاں کھانا اور پانی تک نہیں۔ خطبۂ حج کے دوران بھی شیخ نے کہا کہ اپنے ان فلسطینی بھائیوں کے لیے بھی خوب دعا کرو، سب سے زیادہ ان کے لیے دعا کرو، یہ مستحق ہیں۔ اور وہ بھی دعا کے حق دار ہیں جنھوں نے انھیں کھانا دیا، ایمبولینس دیں، احسان کیا، نیکی کی ان کے لیے بھی دعا کریں۔
ڈاکٹر المعیقلی نے خطبہ حج دیتے ہوئے کہا ہر چیز کا وہ مالک ہے جس نے قرآن نازل کیا، رحمت بناکر اور لوگوں کے حالات اچھے کیے، قرآن وہ کتاب ہے جس کی آیات حکمت سے بھری ہیں ،اللہ خبیر کی طرف سے، یہ قرآن لوگوں کو سیدھی راہ دکھاتا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں۔انہوں ںے کہا کہ اللہ متقی لوگوں کو فلاح کے ساتھ نجات دیتا ہے، قیامت کے دن انھیں دکھ نہ پہنچے گا، جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا اسے وہاں سے رزق ملے گا جہاں اسے گمان بھی نہیں ہوگا، جو متقی ہوگا اللہ اس کے گناہ معاف کرکے اس کا اجر بڑھا دے گا۔انھوں نے کہا کہ عبادت صرف اللہ کی اور حکم صرف اللہ کا اور یہی دین ہے، اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمھیں اور تم سے پہلے پیدا کیا، یہی توحید کی گواہی ہے۔شیخ ڈاکٹر ماہربن حمد نے کہا کہ اللہ واحد ہے ،للہ ہر چیز کا مالک ہے اور اس کا نازل کردہ قرآن سیدھی راہ دکھاتا ہے، اے لوگو اللہ سے ڈرو، تقویٰ ہی فلاح کا راستہ ہے، دنیا کی زندگی کہیں تمھیں دھوکے میں نہ رکھے۔ بے شک اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی پیروی کرنے والے ہی دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوں گے، رسولؐ کی اتباع کرنے والوں نے ہی فلاح پائی۔
کورونا کی افتاد سے پہلے حج کے موقع پر ہر سال 25 سے 30 لاکھ فرزندانِ توحید میدان عرفات میں جمع ہو کر امتِ واحدہ کے مضبوط و متحد ہونے کا ٹھوس اور عملی پیغام اقوام عالم بالخصوص طاغوتی اور الحادی قوتوں کو پہنچاتے اور امتِ واحدہ کے جوش ایمانی سے حرمین شریفین کی مقدس دھرتی کو منور و معطر رکھتے تاہم کورونا وائرس کے باعث دو سال تک امتِ مسلمہ ذاتِ باری تعالیٰ کی کڑی آزمائش میں رہی اور فریضۂ حج کی ادائیگی بھی موقوف ہوئی۔ اب خدا تعالیٰ کے خاص انعام کے تحت فریضۂ حج کی ادائیگی سے متعلق سرگرمیاں بحال ہو چکی ہیں اور اتحاد امت کا اسلام کی نشاۃ ثانیہ والا تصور بھی عملی قالب میں ڈھلتا نظر آرہاہے جس کے ساتھ ہی فریضۂ حج سے منسلک جانوروں کی قربانی کا فریضہ بھی دوبارہ مذہبی جوش و عقیدت کے ساتھ ادا کیا جارہا ہے۔ عرب ممالک سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں بدھ کے روز عیدالاضحی کی خوشیاں مذہبی جوش و خروش سے منائی گئیں جبکہ آج سوموار کو پاکستان سمیت متعدد دوسرے ممالک میں مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ عیدالاضحی منائی جا رہی ہے۔
اس سلسلے میں آج کھلے مقامات پر نماز عید کے اجتماعات ہوں گے جس کے بعد جانور قربان کیے جائیں گے۔ حد درجے کو پہنچی مہنگائی کے باعث اس بار اسلامیانِ پاکستان کو جانور قربان کرنے کے معاملہ میں خاصی دقتیں پیش آئی ہیں اور بیشتر لوگ استطاعت نہ ہونے کے باعث قربانی کا فریضہ ادا کرنے سے محروم رہے ہیں چنانچہ ہمارے آج کے اقتصادی اور معاشی حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ صاحب ثروت لوگ اپنے غریب و نادار بھائیوں کی معاونت کے لیے فراخدلی کے ساتھ آگے بڑھیں اور اقتصادی جکڑ بندیوں کے باعث ان میں کسی قسم کی محرومیوں کا احساس اجاگر نہ ہونے دیں۔ ناجائز منافع خوروں کو اس مقدس تہوار کے موقع پر خدا خوفی سے کام لینا اور اپنی عاقبت سنوارنا چاہیے۔ وہ اپنی حرص و ہوس کے باعث مصنوعی مہنگائی کے ذریعے بے وسیلہ لوگوں کے ارمانوں کا خون تو کرتے ہی ہیں اپنے گھر بھی ناجائز منافع خوری کی صورت میں جہنم کی آگ سے بھرتے ہیں۔ بے شک ذاتِ باری تعالیٰ تک قربانی کا گوشت نہیں آپ کا تقویٰ پہنچتا ہے اور تقویٰ یہی ہے کہ آپ کسی بھی مذہبی تہوار اور خوشی کے موقع پر خلق خدا کے چہروں پر ٹپکنے والی مایوسی کا مداوا کریں اور انھیں بھی اپنی خوشیوں میں برابر کا شریک کریں۔ خطبۂ حج میں بھی احکام خداوندی کی روشنی میں یہی درس دیا ہے کہ خیر کے کام میں لوگ ایک دوسرے سے تعاون کریں اور آپس میں جڑے رہیں کیونکہ اسلام بھائی چارے اور اخوت کا درس دیتا ہے۔
خداوند کریم کی جانب سے اپنی مخلوق کے لیے آزمائش بھی یقیناً حکمت سے خالی نہیں ہوتی۔ نجات کا راستہ صرف اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے میں ہی ہے۔ بے شک اللہ کی رسی دراز ہے جسے سرکش انسانوں کو سبق سکھانے کے لیے کھینچنے میں ذرہ بھر دیر نہیں لگتی۔ قدرتی آفات، وبائوں، زلزلوں، سیلابوں اور مختلف عوارض کی شکل میں اللہ کی آزمائش بھی نخوت و تکبر میں ڈوبے سرکش انسانوں سے اللہ کی رسی مضبوطی کے ساتھ تھامنے کی ہی متقاضی ہوتی ہے تاکہ وہ راہ ہدایت اختیار کریں اور خداوند کریم کے خدائی وصف کو خود اختیار نہ کربیٹھیں۔ ذاتِ باری تعالیٰ نے فریضۂ حج کی خشوع و خضوح کے ساتھ ادائیگی کی صورت میں اپنی فضیلتوں اور رحمتوں کے دروازے امتِ واحدہ کے لیے دوبارہ کھول دیے ہیں تو اس کا شکر خلقِ خدا کی محرومیوں کا ازالہ کرکے ادا کیا جائے۔ آج امتِ واحدہ اپنے اندرونی انتشار اور کمزوریوں کے باعث جس ابتلاء کا شکار ہے، وہ ہم سے مثالی اتحادِ امت کی ہی متقاضی ہے۔
اس وقت مقبوضہ جموں و کشمیر اور فلسطین کے مظلوم مسلمان جس حال میں جی رہے ہیں یہ پوری مسلم امہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ غیر مسلم ممالک نے غزہ میں دہشت گرد ریاست اسرائیل کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف زیادہ بہتر انداز میں آواز بلند کی ہے اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کی طرف سے صرف کھوکھلے بیانات ہی سامنے آئے ہیں۔ خطبۂ حج کے دوران بھی اور اس کے بعد کرائی گئی دعا میں بھی شیخ ڈاکٹر ماہر بن حمد نے فلسطین کا جو خصوصی ذکر کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس ذکر کو صرف تقریروں اور دعاؤں تک محدود رکھا جائے بلکہ اس کے ذریعے مسلم حکمرانوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر ٹھوس اقدامات کریں اور دنیا بھر میں جہاں بھی مسلمان ظلم و ستم کا شکار ہیں ان کی عملی طور پر مدد کریں۔ ایسے اقدامات ہی سے پیغمبروں کی حق پرستی کی سنت زندہ ہوگی اور ظالموں کو یہ پیغام ملے گا کہ ظلم کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جائے گا۔