پیر‘ 10 ذو الحج 1445ھ ‘ 17 جون 2024ء
سانگھڑ میں ظالم وڈیرے نے کھیت میں داخل ہونے پر اونٹ کی ٹانگ کاٹ دی
اس دور میں ایسی ظالمانہ حرکت کرنے والے وڈیرے پر قہر ٹوٹے نہ ٹوٹے‘ انسداد بے رحمی حیوانات والوں کی طرف سے جانوروں کے حقوق پر شور کرنے والوں کا خاموش رہنا حیرت انگیز ہے۔ ابھی تک تو اس ظالم وحشی درندے کو سخت ترین سزا مل جانی چاہیے تھی۔ وہ بے زبان اونٹ تو ٹانگ کٹنے کے بعد دیر تک آسمان کی طرف منہ اٹھائے خدا سے روتے ہوئے فریاد کرتا رہا کہ دیکھ لے پروردگار میں تو حیوان تھا غلطی سے کسی کے کھیت میں گیا مگر وہ تو انسان تھا اس نے دیکھ لے کتنا ظلم کیا۔
حیرت کی بات ہے‘ کیا وہ مسلمان شخص ہے جس نے یہ کیا؟ اسے معلوم نہیں کہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو مارنے والے چند افراد تھے اور قہر خداوندی پوری قوم پر ٹوٹا۔ اب نجانے کیا ہو گا۔ وہ صرف انسانوں کا نہیں سب کا خدا ہے۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی کے دور میں بھی ایسے ہی ظالم وڈیروں نے اونٹوں کی دموں میں آگ لگا کر ان کے تڑپنے کا تماشہ دیکھ کر قہقہے لگائے تھے۔ اس پر انہوں نے کیا خوبصورت اشعار کہے جن کا ترجمہ یوں ہے۔
شتر بانوں کے خیمے آباد رہیں گے
اور محلات والے برباد ہوں گے
تاریخ گواہ ہے شاہ لطیف کی بات درست ثابت ہوئی۔ اب بھی کہیں ایسا ہی نہ ہو اور ایک بار پھر سر پھرے ظالم وڈیروں کے محلات برباد ہوں اور غریب شتربانوں کے خیمے آباد رہیں۔ انسان جب شرف انسانیت کے درجے سے گر جائے اوردرندہ بن جائے تو پھر اسے سزا ملتی ہے۔ یہ ظالم بھی اب اس پکڑ کا انتظار کریں جس سے کوئی نہیں بچ سکا۔
٭٭٭٭٭
ہر دروازے پر دستک دی کہیں سے انصاف نہیں ملا۔طاہر القادری۔
کافی دنوں بعد کینیڈا والے مولانا کا کوئی جذباتی بیان اخبارات کی زینت بنا ہے۔ اگرچہ
اب وہ زلفوں میں مہکتے ہوئے جذبات کہاں
اب محبت میں دِل زار وہ دن رات کہاں
والی حالت عیاں ہے۔ مگر پھر بھی مولانا کا یوں نوحۂ غم پڑھنا بتا رہا ہے کہ وہ متاثرین ماڈل ٹائون کے لواحقین کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے لوگوں تک اپنی بات پہنچانے کے لیے ایسے الفاظ استعمال کر رہے ہیں کہ لوگوں کو پتہ چلے کہ مولانا بہت دل گرفتہ ہیں۔ جب گزشتہ 4 سال سے زیادہ ان کے برادر اصغر کی بقول ان کے ریاست مدینہ والی حکومت رہی تو تب طاہر القادری نے پیار سے یا طاقت سے متاثرین کو انصاف دلوانے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ اس وقت انہیں کینیڈا کے پْرلطف موسم اور پر آسائش زندگی میں یہ خیال کیوں نہیں ستایا۔ اب اچانک ایسا جذباتی بیان دینے سے بہتر تھا کہ وہ بھی پی ٹی آئی کے بانی کی طرح عدالتوں سے رجوع کرتے اور حصول انصاف کی دہائی دیتے مگر نجانے کیوں نہ پہلے انہوں نے ایسا کیا‘ نہ اب کر رہے ہیں۔ اب نجانے انہوں نے کس کس دروازے پر دستک دی۔ یہ وہ جانیں یا متاثرین کے لواحقین۔ ویسے تو پاکستان میں ہر شخص انصاف نہ ملنے کا شاکی ہے۔ خواہ وہ حق پر ہو یا ناحق۔ دوسروں کی بات تو چھوڑیں خود قاتل اور ڈاکو بھی عدالتوں میں خود کو بے گناہ کہہ کر انصاف طلب کرتے نظر آتے ہیں۔ بس ذرا وکیل تگڑا ہو۔ مولانا طاہر القادری بھی ذرا تجوری کھولیں‘ پی ٹی آئی والوں کی طرح تگڑے وکیل کریں پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ صرف سوچنے سے کچھ نہیں ہوتا، انصاف لیا جاتا ہے مانگا جاتا ہے خودبخود دروازے تک چل کر نہیں آتا۔
٭٭٭٭٭
نقلی دانت لگا کر بکرے فروخت کرنے والے میاں بیوی گرفتار
جس معاشرے میں دو نمبری کر کے حج و عمرہ پر جاتے ہوئے لوگوں کو شرم نہیں آتی خوف خدا نہیں آتا کہ وہ ایک نیک کام کے لیے مقدس مقامات پر جا رہے ہیں۔ جعلی ویزے جعلی ہیلتھ کارڈ بنواتے ہیں۔ رشوت دے کر کام کرواتے ہیں۔ اس معاشرے میں بقول شاعر
صحرا بے سماعت میں اذان دیتے ہیں
جو آدمی سے فلاح کی امید رکھتے ہیں
اب کراچی میں واقعہ آشکارہ ہوا۔ میاں بیوی پکڑے گئے ورنہ ہمارے ہاں تو قصائی بکری کا گوشت بکرا کا بنا کر فروخت کرتے ہیں۔ ایلفی سے ٹوٹے ہوئے سینگ جوڑ کر کْھر جوڑ کر جانور فروخت کرنے کی اطلاعات پہلے بھی ملتی رہتی تھیں مگر اب یہ بکرے کو نقلی دانت لگانے کا واقعہ قدرے نیا ہے۔ خدا جانے کب سے یہ سلسلہ بھی جاری تھا مگر ہمیں پتہ نہ چلا۔ کراچی مویشی منڈی میں حیدر آباد سے آیا ایک جوڑا بکرے فروخت کر رہا تھا جن کے یا تو دانت ٹوٹے ہوں گے یا بیماری سے جھڑ گئے ہوں گے۔ اب ان کی شامت آئی تھی۔ کسی گاہک نے جب بکرے کے دانت چیک کئے تو پتہ چلا وہ نقلی ہیں۔ یوں انسانوں کی نقلی بتیسی کے ساتھ اب بکروں کی بتیسی بھی مارکیٹ میں آ گئی ہے۔ اس جوڑے نے بکرے کو پلاسٹک کے دانت لگائے ہوئے تھے۔ پولیس نے انہیں پکڑا تو پتہ چلا کہ وہ اس طرح سات عدد بکروں کی پلاسٹک سرجری برائے دندان کر چکے ہیں اور اب خدا جانے وہ بکرے بکے ہیں یا نہیں۔ ورنہ کئی لوگ قربانی سے محروم رہ جائیں گے۔ اب خود سوچیں جو لوگ خدا کی راہ میں دی جانے والی قربانی کے جانور میں بھی فراڈ کرتے ہیں وہ اور کیا کچھ نہیں کرتے ہوں گے۔
٭٭٭٭٭
لاہور ہائیکورٹ نے دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں بند کرنے کا حکم دے دیا
ایسا تو پہلے بھی کئی مرتبہ ہوا۔ شور مچا، مگر چند دن بعد پھر وہی ’’چار دن کی چاندنی پھر اندھری رات‘‘ والی حالت سب کے سامنے ہوتی ہے۔ سب جانتے ہیں پاکستان دنیا کے آلودہ ترین ممالک میں شامل ہے۔ اسی فضائی آلودگی کی وجہ سے ماحول تباہ ہو رہا ہے۔ لوگ طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ اوپر سے سڑکوں پر جہاں نظر ڈالیں کھٹارہ گاڑیاں، رکشے، موٹر سائیکلیں، بسیں دھواں پھیلا کر آلودگی میں مزید اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ کارخانے ، فیکٹریاں الگ اپنا حصہ ڈال کر حالات مزید خراب کرتے ہیں۔ جب تک قانون پر احکامات پر سختی سے عملدرآمد نہیں کرایا جاتا، صرف حکم دینے سے کام نہیں چلے گا۔ ہمارے معاشرے میں صرف ڈنڈے کی زبان مانی جاتی ہے۔ پیار و محبت کی زبان کوئی نہیں جانتا۔ اسے کمزوری سمجھ کر اس کو سننا تک پسند نہیں کرتے۔ جبھی تو جسے دیکھو سر پھرا بنا قدم قدم پر قانون کا مذاق اڑاتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیں آلودگی اور سموگ کی وجہ سے کئی کئی ماہ پنجاب میں سفر کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے۔ حادثات ہوتے ہیں ، بیماروں سے ہسپتال بھر جاتے ہیں۔ مگر کوئی قانون پر عمل نہیں کرتا۔ اس حوالے سے انتظامیہ بھی ناکام نظر آتی ہے۔ اب کہیں عدالتی حکم بھی ان ناکارہ گاڑیوں کے دھویں کے ساتھ ہی نہ اڑ جائیں۔ اقبال نے کیا خوب کہاں تھا ’’عصا نہ ہو تو کار کلیمی بے کار‘‘
جب تک سزا نہیں ملتی‘ کوئی سدھرنے والا نہیں۔ اس وقت 80 فیصد گاڑیاں فٹنس سرٹیفکیٹ کے بنا ہی موت بانٹتی پھر رہی ہیں۔
٭٭٭٭٭