جمعرات،13ذوالحج 1445 ھ، 20 جون 2024ء
راولپنڈی میں ظالم شخص نے گدھے کے کان کاٹ دئیے
ابھی تک تو ملک میں انسانوں کے سر دھڑ سے علیحدہ کر کے لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی خبریں سْنی تھیں۔ اسی طرح ہاتھ پائوں کاٹنے، ناک اور کان کاٹنے کی بے شمار وارداتیں بھی ہر سال ہوتی ہیں۔ آنکھیں نکالنا، زندہ جلا دینا بھی ہمارے ہاں عام ہے۔ جب وحشت اور درندگی کا کھیل کھیلنے کے لیے ہمارے معاشرے میں بے شمار مواقع اور لوازمات موجود ہیں تو پھر یہ اچانک کیا ہو گیا کہ انسان نما
درندوں نے اب حیوانات کا رخ کر لیا ہے۔ ان بے زبانوں نے حد سے حد یہی جرم کیا ہو گا کہ کسی کے کھیت میں جا گھسے۔ کسی کے پودے کھا لیے یا کسی کو دولتی جھاڑ دی۔ وہ بھی خوامخواہ نہیں جب انہیں چھیڑا جاتا ہے تو پھر وہ جوابی ایکشن لیتے ہیں۔ پہلے سانگھڑ میں اونٹ کی ٹانگ کاٹی گئی۔ اب یہ گدھے کے کان کاٹ ڈالے گئے ہیں۔ کسی اور جگہ سے گدھے کی ہڈیاں توڑنے کی اطلاع بھی ہے۔ معلوم نہیں یہ اچانک حیوانات پر ظلم سے کسی کو کیا ملتا ہے کونسی حس کی تسکین ہوتی ہے۔ لڑنے والے کتوں کے کان کاٹنے کا تو سب کو پتہ ہے کہ اس طرح لڑائی میں ان کو مخالف کتا کان سے پکڑنے سے محروم رہتا ہے۔ مگر غصے میں آ کر کسی کتے کو پھانسی دینا بھی ظلم ہے۔ کیا انسان ختم ہو گئے ہیں کہ اب ہمارے معاشرے میں جانوروں کو بھی تختہ مشق بنایا جا رہا ہے۔ صبر و ضبط اور تحمل مزاجی کہاں گھاس چرنے چلی گئی ہے کہ ہم بات بات پر بھڑک اٹھتے ہیں۔ نتائج کی پرواہ کئے بغیر غلط کام کرتے ہیں۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے تو یہ واقعات رپورٹ ہوئے اور شور مچ رہا ہے۔ ورنہ جس بے حس معاشرے میں معصوم بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا جاتا ہو وہاں جانوروں پر ظلم پر کسی کی توجہ نہیں جاتی تھی۔ کاش انسانوں کے ظلم و ستم کا شکار ہونے والے بچوں، عورتوں کو بھی اتنی ہی اہمیت دی جائے۔ انہیں بھی مصنوعی اعضا اور ان کے گھر والوں کو انصاف اور سہولتیں دی جائیں تو زیادہ ثواب ہو گا۔
٭٭٭٭٭
بڑی مشکل سے خود کو خاموش کر رکھا ہے۔ شیر افضل مروت۔
’’زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے‘‘۔ یہی دیکھ لیں کل تک جو رونق محفل ہوا کرتے تھے۔ آپ انہیں شمع انجمن بھی کہہ سکتے تھے۔ آج نجانے کہاں اندھیروں میں گم ہو گئے ہیں۔ مروت کو حق ہے کہ وہ بزبان ساغر صدیقی کہہ دیں کہ
میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں۔
کیونکہ انہی شراروں کی وجہ سے انہیں اوج ثریا سے تخت الثری تک پہنچا دیا گیا۔ اب وہ اپنے پرانے تعلق کی وجہ سے نجانے خود پر کتنا جبر کرکے خاموش بیٹھے ہیں اور کہہ بھی رہے ہیں کہ بڑی مشکل سے میں نے خود کو خاموش کر رکھا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے۔ اگر انہوں نے خاموشی توڑی تو پی ٹی آئی کی صفوں میں زلزلہ برپا ہو سکتا ہے۔ مگر و ہ اپنے بانی کی رعایت میں فی الحال چپ ہیں۔ مگر جب دل بھر آتا ہے تو کوئی نہ کوئی ایسا جملہ ضرور بولتے ہیں جس سے ان کا درد دل عیاں ہوتا ہے۔ مگر شاید ابھی تک اڈیالہ جیل کے قیدی کے دل پر ان کے نالوں کا اثر نہیں ہو رہا اور وہ ان کی طرف سے آنکھیں اور کان بند رکھے ہوئے ہیں۔ مروت نے کہا ہے کہ کرائے کے لوگوں نے ان کے خلاف محاذ بنا رکھا ہے۔ سچ یہی ہے کہ یونہی کندھا مار کر آگے نکلنے والے کامیاب ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔ یہ بات بھی مروت ذہن نشین کر لیں بہرحال یہ تماشہ نجانے کب تک چلتا رہے۔ اس کا انجام کیا نکلتا ہے۔ اس بے رحم سیاسی سرکس میں بڑے بڑے فنکار یونہی بے رحمی سے تاریکیوں میں ڈوب گئے اور ڈوبتے رہیں گے…
٭٭٭٭٭
کرکٹر حارث رئوف سے امریکہ میں ایک پرستار کی بدتمیزی
ذاتی زندگی میں مداخلت اور فیملی کے سامنے بدزبانی کا کسی کو حق نہیں دیا جا سکتا چاہے وہ کوئی فین ہو یا دشمن، یہ غلط کام ہے۔اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ گزشتہ روز حارث رئوف کے ساتھ پاکستانی ٹیم کے ایک فین نے جو بدتمیزی کی وہ سب نے دیکھی۔ حارث اپنی اہلیہ کے ساتھ تھے۔ کم از کم وہ شخص اس کا ہی خیال کرتا مگر لگتا ہے اس کی تربیت ہی ایسی تھی۔ عام طور پر گرائونڈ میں کھلاڑیوں کو تعریف اور تنقید دونوں ہی سننا پڑتی ہے۔ انہیں تنگ بھی کیا جاتا ہے۔ مگر اس طرح حملہ آور کوئی نہیں ہوتا۔ یوں لگ رہا تھا کہ جان بوجھ کر ایسا کیا گیا یا منصوبے کے تحت کرایا گیا۔ پاکستانی ٹیم کی کارکردگی پر پورا ملک سراپا احتجاج ہے۔ ہر طرف ان کو کوسا جا رہا ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ راہ چلتے کوئی بھی ان پر حملہ آور ہو۔ گالیاں بکے ان کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرے۔ گھر والوں کا بھی خیال نہ رکھے۔ یہ تو شکر ہے۔ معاملہ ہاتھا پائی تک نہ پہنچا ورنہ حارث کے ہاتھوں اس کی ٹھکائی ہو جاتی۔ اب پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی حارث کی حمایت میں یک زبان تو ہیں ہی مگر لوگوں کو بھی اس حرکت سے بہت دکھ ہوا ہے کوئی بھی اس کام کو پسند نہیں کر رہا۔ اب یہ مرض بڑھ رہا ہے کہ ہمارے احمق جذباتی لوگ ملک سے باہر بھی ایسی حرکات کر کے ملک کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ سیاست ہو یا کھیل ہمیں ہر میدان میں ایسی چھچھوندری حرکتوں سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہو۔ ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
٭٭٭٭٭
وزیر اعظم کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات
دیکھ لیں وہی ہوا۔ مولانا فضل الرحمن نے کیا خوبصورت گیم کھیلی۔ ایک طرف پی ٹی آئی والے ان کے صدقے واری جا رہے ہیں تو دوسری طرف مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی والے ان کی بلائیں لے رہے ہیں۔ وزیر اعظم ازخود چل کر ان کے عالیشان دردولت پر پہنچے اور ان سے ملاقات کی۔ اب ظاہر ہے اس ملاقات میں قربانی کا گوشت یاکھالیں بھیجنے کی بات تو نہیں ہوئی ہو گی۔ سیاسی امور زیر بحث آئے ہوں گے۔ مولانا کو حکومت کی حمایت میں رام کرنے کوشش ہوئی ہو گی۔ دوسری طرف یوسف رضا گیلانی بھی کہہ رہے ہیں کہ مولانا پی ٹی آئی کی بجائے ہمارے ساتھ سجتے ہیں۔ پی ٹی آئی میں تو وہ اجنبی لگتے ہیں۔ اس کے برعکس اسد قیصر اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنما روزانہ کی بنیاد پر مولاناکے آگے پیچھے ہو رہے ہیں کہ کہیں حکومتی اتحاد انہیں اچک نہ لے۔ یوں مولانا کی سیاسی گیم کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے۔ وہ دونوں طرف سے اب بہتر بارگیننگ کر سکتے ہیں جہاں بھی گئے یہی کہیں گے کہ یہ فیصلہ مناسب تھا۔ رہی بات اصول کی تو وہ جائے بھاڑ میں سیاسی بیانات جائیں چولہے میں ان کو کون یاد رکھتا ہے
شاعر نے کیا خوب کہا تھا
خلاف شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں۔
مولانا بھی مذہبی جماعت کے قائد ہیں انہیں ابھی تک خیبر پی کے میں یوں سیاسی شکست ہضم نہیں ہو رہی۔ مگر کیا کریں حکومت سے دوری بھی تو ناقابلِ برداشت ہے۔ رہی بات طوفان، تباہی اور زلزلوں کی تو وہ مولانا کا سیاسی طرز بیان کہہ کر ان کے ترجمان عوام کو اسے بھول جانے کا مشورہ دیں گے۔
٭٭٭٭٭