انسانی حقوق کی تحریک پر پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے اثرات
ہم نے گزشتہ دو کالموں میں تاریخ کے دو ادوار قدیم دور اور جدید دور میں پیدا ہونے والے انسانی حقوق کے تصورات اور ان کے ارتقاء کو مختصر الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے جس میں ضابطہ حمورابی، سائرس اعظم کے فرمان اور آسمانی کتابوں کے حوالہ جات، میگنا کارٹا ، ہالینڈ میں عالمی قوانین کے تصورات و بنیادی فریم ورک، 1689ء میں برطانوی پارلیمنٹ میں انسانی حقوق کے قوانین کی منظوری، 1776ء میں امریکہ میں آزادی کا اعلامیہ، 1791ء میں امریکی کانگریس میں بنیادی انسانی حقوق کے قوانین کی منظوری، 1834ء میں برطانیہ میں غلامی کے خاتمہ کے قانون کی منظوری وغیرہ کو احاطہ تحریر میں لایا گیا۔
زمانہ قدیم اور زمانہ جدید کے انسانی تصورات میں خاصیتی نوعیت کا فرق محض یہ تھا کہ زمانہ قدیم میں حقوق تقویض شدہ،مشروط اور قابل تنسیخ ہوا کرتے تھے جبکہ زمانہ جدید کے تصورات اور دستاویزات میں انسانی حقوق کو ناقابل تنسیخ، غیر مشروط اور پیدائشی حقوق کے طور پر دیکھا جانے لگا۔
انسانی حقوق کی تحریک کے ارتقائی سفر میں اگلا اہم موڑ یا سنگ میل پہلی اور دوسری عالمی جنگ کی صورت میں آیا۔پہلی عالمی جنگ 1914ء سے 1918ء کے درمیان لڑی گئی۔اس وقت دنیا کے تمام اہم ممالک نے اسمیں فریق اور اتحادی کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کیا۔مجموعی طور پر اس جنگ میں ایک کروڑ55 لاکھ سے زیادہ فوجی جبکہ ایک کروڑ 5 لاکھ سے زائد عام شہری مارے گئے۔جنگی قیدیوں کی مجموعی تعداد 9لاکھ سے زائد تھی۔جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم میں شہریوں کا قتل عام اور نسل کشی، کیمیکل ہتھیاروں کا وسیع استعمال، شہروں ، ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں پر بمباری،شہریوں کی جبری نقل مکانیاں،خواتین کی بے حرمتی، جنگی قیدیوں سے بد سلوکی اور ہلاکتیں۔
پہلی جنگ عظیم کے خاتمے اور نتیجے کے طور پر 10جنوری 1920ء کو لیگ آف دی نیشنز کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد مستقبل میں جنگوں کی روک تھام اورعالمی امن کو قائم رکھنا تھا۔لیگ آف دی نیشنز کے تحت تین بنیادی اداروں کی بنیاد رکھی گئی جس میں لیگ آف دی نیشنز کی اسمبلی اور مرکزی سیکریٹریٹ ، عالمی انصاف کی مستقل عدالت اور مزدوروں کی عالمی تنظیم(ILO) شامل تھے۔
دوسری جنگ عظیم (1939ء سے 1945ء ) کے دوران لڑی گئی۔اس جنگ میں مجموعی طور پر 2کروڑ فوجی اور4 کروڑ عام شہری مارے گئے تھے۔ جنگی قیدیوں کی تعداد بھی اگرچہ کروڑوں میں بنتی ہے مگر درست اعدادوشمار کا ریکارڈ شاید ابتک مرتب نہیں کیا جا سکا۔ پہلی جنگ عظیم کی طرح اس جنگ میں بھی فریقین کی جانب سے بڑے پیمانے پر جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا گیا اور نئی طرح کے انسانی المیوں نے جنم لیا۔عام شہریوں کا قتل عام، جنگی قیدیوں پر تشدد اور قتل عام،اجتماعی جنسی زیادتیاں،تجارتی بحری جہازوں پر حملے اور عملے کا قتل، قیدیوں سے جبری مشقت،ادویات اور دوسرے میڈیکل آلات کی جنگی قیدیوں پر آزمائش،مذہبی، نسلی اور علاقائی بنیادوں پر یہودیوں، جپسی قبائل، چیچن عوام کے علاوہ ہیجڑوں اور ہم جنس پرستوں کا قتل عام، انفرادی سطح پر جاسوسی اور ملک دشمنی کے شبہ اور حتیٰ کہ جنگ کی مخالفت کرنے پر بھی بیشمار شہریوں کی قیدو بند اور سزائے موت،ایٹمی حملوں سے دو شہروں کا شہریوں سمیت صفحہ ہستی سے خاتمہ۔
جنگ کے بعد بحالی امن، تعمیر نو،معاشی اور سیاسی بحرانوں کے حل کے علاوہ جنگ سے پیدا شدہ لاتعداد سماجی مسائل سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پرلیگ آف دی نیشنز کے متبادل کے طور پر 24 اکتوبر 1945ء کو اقوام متحدہ کاباقاعدہ قیام عمل میں لایا گیا اور قیام سے قبل اس کا چارٹر چین، فرانس، سوویت یونین، برطانیہ اور امریکہ سے منظور کروایا گیا۔لیگ آف دی نیشنز کو بعد میں20 اپریل 1946ء میں باقاعدہ طور پر ختم کر دیا گیا۔اقوام متحدہ کے بنیادی مقاصد میں عالمی امن اور تحفظ کا قیام، حقوق کی بنیادوں پر انسانیت کی خدمت، بین الاقوامی قوانین کا نفاذ و پابندی اور انسانی حقوق کی حفاظت شامل ہیں۔
پہلی عالمی جنگ کے بعد لیگ آف دی نیشنز کے قیام اور دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کے قیام کو انسانی حقوق کی تحریک میں ایک اہم موڑ یا سنگ میل اس لیے بھی قرار دیا جا تا ہے کیونکہ اس سے قبل انسانی حقوق کا مسئلہ عوام اور ریاستوں کے مابین ہوا کرتا تھا۔ان جنگوں کے دوران ایک ملک کی افواج کے باتھوں اپنے ملک اور دوسرے ممالک کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں سے عالمی سطح پر انسانی حقوق کے تعین، حفاظت اور احترام کے تصورات کو تقویت ملی۔
اقوام متحدہ کے قیام کے قریباً 80 سال بعد بھی جب کبھی بھی انسانی حقوق یا انسانی حقوق کی تحریک کا ذکر ہوتا ہے تو ذہن میں فوراً اقوام متحدہ کا ہی خیال آتا ہے۔ گو کہ دنیا کی اکثریتی ریاستوں نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کو تسلیم کر رکھا ہے مگر ریاستیں موقع ہاتھ آتے ہی فوراً اپنے عوام کے حقوق کو سلب کرنے میں دیر نہیں کرتیں۔بد قسمتی سے فکری سطح پر فرض کر لیا گیا ہے کہ انسانی حقوق پر عمل درآمد کا ’’ٹھیکہ‘‘ اقوام متحدہ کے پاس ہے اور جو کرے اقوام متحدہ ہی کرے۔
اس وقت انسانی حقوق کے ضمن میں مستند اور جامع ترین دستاویز اقوام متحدہ کے اعلامیہ ہی کی شکل میں ہے مگر یہ اعلامیہ دنیا بھر کے ذی شعور انسانوں کی صدیوں کی محنت و ریاضت کا ثمر اور ورثہ ہے۔اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ دنیا کے تمام اہل شعور، سول سوسائٹی، سیاسی پارٹیوں، حکومتوں اور ریاستوں کا فریضہ ہے کہ وہ انسانی حقوق کے تحفظ اور احترام کو یقینی بنائیں۔