سینٹ: بجٹ کمر توڑ، علی ظفر: اخراجات کنٹرول کرنے چاہئیں، پی پی
اسلام آباد (خبرنگار) سینٹ کا اجلاس ڈپٹی چیئرمین سیدال خان کی زیرصدارت منعقد ہوا۔ وزارت خزانہ کی طرف سے بجٹ کے حوالے بھیجی گئی مزید دستاویزات ارکان کو فراہم کی گئیں۔ تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر علی ظفر نے ایوان بالا میں بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ یہ بجٹ عوام دشمن بجٹ ہے، اس بجٹ میں ماسوائے ٹیکس پیئر کی کمر ٹوٹنے کے امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی، یہ حکومت عوام کی نمائندگی نہیں کر رہی، کمر توڑ ٹیکس والا بجٹ اگر منظور ہو گیا تو بہت جلد اس ملک میں انقلاب آ جائے گا۔ حکومت اپنے اخراجات کم کرے، بجٹ تباہی کی ریسیپی (نسخہ )ہے۔ 40%بجٹ میں ٹیکس بڑھایا جارہا ہے۔ اگلے تین ماہ میں منی بجٹ آجائے گا۔ پراپرٹی اور کنسٹرکشن کا کاروبار ختم ہوجائے گا۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کامران مرتضیٰ نے کہاکہ اگر ایوان میں ہم سب بھی نہ ہوں تو ان پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ علی ظفر نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کو چھوٹے صوبوں کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس سے فائدہ نہیں نقصان ہوگا۔ کوئٹہ میں دس لوگوں کو اغوا کیا گیا ہے۔ کیا پہلے کوئٹہ میں زبان کی بنیاد پر اس طرح کے واقعات ہوتے تھے۔ ان لوگوں کو عوام نے منتخب نہیں کیا۔ ان کو اسٹیبلشمنٹ نے منتخب کیا ہے۔ جو اس ملک کو کنٹرول کررہے ہیں وہ ملک کو چھوڑیں گے تو ملک کا بھلا ہوگا۔ پیپلزپارٹی کی سینیٹر قرۃ العین نے کہاکہ میرے علاقے میں 20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ پی ٹی آئی والوں نے لندن مئیر صادق خان کے مقابلے میں یہودی گولڈ سمتھ کے بیٹے کی حمایت کرتے رہے۔ پی ٹی آئی والے ہمیں ہرگز کمزور نہ سمجھیں۔ ہم شریف ہیں کمزور نہیں ہیں۔ اے این پی کے سینیٹر حاجی ہدایت اللہ نے کہاکہ بجٹ میں ٹیکس کی بھرمار کردی گئی۔ دوائیوں پر ٹیکس واپس لیا جائے۔ پراپرٹی پر ٹیکس کم کیا جائے۔ آزاد سینیٹر فیصل واوڈا نے کہاکہ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں ایک ایس آر او نکالا گیا، ایک آٹو مینوفیکچر کمپنی کو فائدہ دیا گیا۔ کہا گیا کہ یہ میرا بزنس تھا، میں بتا دینا چاہتا ہوں میرا اس سارے عمل میں کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ جب ہم ایس آئی ایف سی کے تحت کام کاروبار بڑھانے کی بات کر رہے ہیں اس عمل میں ملوث افراد کی نشاندہی کر کے ان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ سینٹ اجلاس میں سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ہم چالیس سال سے ہم صرف گاڑیاں اسمبل کر رہے ہیں، مینوفیکچر نہیں کر رہے۔ اگر چینی پیٹرول پر ٹیکس لگ سکتا ہے تو گاڑیوں پر کیوں نہیں لگ سکتا ہے۔ پارلیمانی لیڈر سینیٹر منظور کاکڑ نے کہا کہ حکومت عوام کو تکلیف نہیں دینا چاہتی۔ حالات کے تحت مجبوراً سخت فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ اگر ملازمت پیشہ افراد پر ٹیکس لگ سکتا ہے تو ریٹیلرز پر ٹیکس کیوں نہیں لگ سکتا۔ ہمیں صحت تعلیم کے لئے زیادہ فنڈز مختص کرنے چاہئے تھے۔ چھ سو سی سی گاڑی بھی تیس لاکھ روپے کی ہو گئی ہے۔ ایک عام آدمی سب سے چھوٹی گاڑی بھی افورڈ نہیں کر سکتے۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر پونجو بھیل نے کہاکہ ہمیں اپنے اخراجات کو کنٹرول کرنے چاہئے، سب سے زیادہ لوڈشیڈنگ سندھ میں ہے، بھٹو شہید نے سوشلزم کو ہماری پالیسی قرار دیا تھا۔ اب سرکاری اداروں کو بیچا جا رہا ہے۔