وزیر خزانہ کا نجی شعبے کا دائرہ کار بڑھانے کا عندیہ
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ملک کو ترقی دینی ہے تو سب کچھ نجی سیکٹر کے حوالے کرنا ہوگا، عوام ہراسمنٹ کی وجہ سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ٹیکس نیٹ میں نہیں آنا چاہتے۔ پنجاب کے شہر کمالیہ میں ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی موجودہ شرح 9.5 فیصد پائیدار نہیں، خیرات سے سکول، یونیورسٹیز اور ہسپتال تو چل سکتے ہیں مگر ملک صرف ٹیکس سے چل سکتا ہے، اس لیے ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح کو بتدریج 13.5 فیصد تک لے جانا پڑے گا۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ تمام شعبوں کو ڈائریکٹ ٹیکس میں لانا ہوگا۔ دوسرا یہ ہے کہ 39 کھرب روپے کی ٹیکس چھوٹ کو بتدریج ختم کرنا ہوگا۔ ادھر، بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فِچ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ آئندہ مالی سال میں مہنگائی بڑھنے کی شرح 12 فیصد اور شرح سود 16 فیصد تک آنے کی توقع ہے۔ محمد اورنگزیب جب سے وزیر خزانہ بنے ہیں وہ بس عوام پر بوجھ ڈالنے کی تجاویز ہی دے رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ وہ زمینی حالات سے واقفیت نہیں رکھتے اور بس وہی باتیں کرتے جارہے ہیں جو انھیں کہیں سے ڈکٹیٹ کی جارہی ہیں۔ ہر مسئلے کا حل نجکاری یا نجی شعبے کو آگے لانا نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ کمزور معیشت کو اپنے پاوں پر کھڑا کرنے کے لیے اپنے وسائل پر انحصار کیا جائے اور حکومت اس سلسلے میں اپنا وہ مثبت کردار ادا کرے جس کے لیے عوام نے اسے مینڈیٹ دیا ہے۔ سب کچھ لپیٹ کر دوسروں کے حوالے کرنا ملکی ترقی نہیں بلکہ اس کی ترقی کو روکنے کے مترادف ہے۔ آئی پی پیز کا کردار سب کے سامنے ہے جنھوں نے عوام کا جینا دو بھر کردیا ہے۔ اگر ترقی کے ضامن ادارے اور صنعتیں غیروں کے سپرد کردی گئیں تو ملک میں بے روزگاری مزید بڑھے گی اور عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔ ایسی صورتحال میں ملک کے اقتصادی مسائل بڑھیں گے اور ترقی کے امکانات مزید کم ہو جائیں گے۔