الوداعی مکالمے کا احساس
مجھے یاد ہے بچپن میں ہم کچھ یار دوست جھنگ سے ملتان جانے والی سڑک کے کنارے کھیل رہے ہوتے تھے تو کبھی کبھار وہاں سے فوجی کانوائے گزرتے۔ ہم سب کھیل چھوڑ کے سڑک کے پاس آتے اور باقاعدہ قطار بنا کر کھڑے ہوجاتے اور گزرتی فوجی گاڑیوں میں بیٹھے خاکی وردیوں میں ملبوس فوجیوں کو زمین پر پاو¿ں مار کے اور ماتھے تک ہاتھ لے جا کر سلیوٹ کرتے۔ جیسے ہمارے معصوم دلوں میں غیر محسوس محبت اور احترام ہم سے یہ کام کرواتا ہو اور جواب میں جب گاڑی میں بیٹھے فوجی جوان ہمارے سلام کا جواب مسکرا کر سلیوٹ کی شکل میں دیتے تو ہمارے دل و دماغ خوشی سے بھر جاتے اور ہم اسی خوشی میں سرشار جلدی جلدی واپس گھروں کو لوٹتے تاکہ فخر سے ان دوستوں کو بتا سکیں جو اس بخت اور دولت سے محروم رہ گئے ہیں جو ہمیں فوجیوں کی طرف سے ملی ہے۔ ہمارے ماں باپ بھی اتنی ہی دلچسپی سے ہمارا یہ واقعہ سنتے اور خوش ہوتے۔ میری ماں ہر دفعہ اپنے پائلٹ بھتیجے، جوکہ ائیرفورس میں تھے، کا ذکر کرتیں اور ہر دفعہ ابا جی گزری ہوئی جنگوں میں ہماری فوج کی بہادری اور قربانی کا کوئی واقعہ ضرور سناتے۔ جس کے خاندان یا محلے میں اگر ایک بھی کوئی فوجی ہوتا تھا اس خاندان اور محلے کی پہچان بن جاتا تھا اور اسے ” فوجی کا“ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔
مجھے موجودہ صورتحال کے تجزیے سے پہلے یہ تمہید باندھنا اس لیے ضروری لگا کہ تب اور اب میں بہت واضح فرق آ چکا ہے۔ بطور شاعر میرا ہمیشہ سے نظریہ اپنے وطن سے وفاداری، عام آدمی سے محبت اور فوج کا احترام رہا ہے۔ اور اگر پوری توجہ سے تجزیے کی کوشش کی جائے تو صرف یہ تین عناصر ہی زوال پذیر نہیں ہوئے بلکہ ہمارا معاشرہ کلیت میں زوال پذیر ہوا ہے۔ میرے نزدیک اس کی پہلی وجہ ہمارے نظام تعلیم اور تربیت کی بربادی ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے دیکھنے میں آیا ہے کہ حصول علم کی خواہش، جذبے اور ذمہ داری کے احساس میں بہت تیزی سے کمی واقعہ ہوئی ہے اور اس کی جگہ بڑی تنخواہ والی نوکری کے لیے ڈگری کے حصول کے لالچ نے لے لی ہے۔ دوسری طرف جس طرح کے نصاب کو شامل کیا گیا ہے اس میں سماجی اقدار کو یکسر پس ِ پشت ڈال کے سٹیٹس کی دوڑ کا عنصر اتنے غیر محسوس طریقے سے سرائیت کرتا گیا ہے کہ ہمیں سمجھنے کی مہلت ہی نہیں ملی۔ کمرشلزم کے ناسور نے ہر جگہ اپنا وار کیا ہے۔ آج ہماری نوجوان نسل ایک ایسے خطرناک موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں نہ رشتوں کا تقدس باقی رہا ہے نہ حب الوطنی کا جذبہ۔ قومیں ہوں یا معاشرے۔ نظریے کے بغیر یا نظریے کی کمزوری کے ساتھ بکھرے ہوئے ریوڑ ہی رہ جایا کرتے ہیں۔ گلوبل ویلج کے تصور نے جہاں مختلف ممالک کو کاروباری سطح پہ جوڑا وہاں ثقافتی اور قومی نظریاتی سطح پر کمزور بھی کیا۔ اس میں شک و شبے کی کوئی گنجائش نہیں رہی کہ کہ کسی بھی قوم اور ملک کے عروج و زوال کو عسکری، سیاسی، سماجی اور معاشی تناظر کے بغیر نہ تو سمجھا جا سکتا ہے نہ اس حوالے سے درست سمت میں اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ سانحہ¿ 9 مئی بھی نہ تو اچانک رونماءہونے والا حادثہ ہے نہ ہی کوئی غیر متوقع واقعہ۔ جب سے پاکستان بنا ہے ملک دشمن عناصر کو اگر کوئی خوف رہا ہے تو ہمیشہ یہ کہ کہیں پاکستان کسی ایسی عسکری قوت میں نہ ڈھل جائے جو طاغوتی قوتوں کے لیے ناقابل تسخیر ہو لیکن اس کے باوجود پاکستانی افواج کے جذبہءشہادت سے سرشار مزاج اور پیشہ ورانہ مہارت نے دشمنوں کی تشویش کو کم نہیں ہونے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو چاروں طرف سے گھیر رکھنے کی سازشیں کبھی ماند نہیں پڑیں۔ ایک طرف تو بڑے ممالک نے اپنی اپنی بین الاقوامی ضرورتوں کے تحت پاکستان میں مارشل لاءکو سپورٹ کیا تو دوسری طرف اپنے زیر ِ اثر سیاسی پارٹیوں ، این جی اوز اور ہم خیال دانشوروں کے ذریعے فوج مخالف پراپیگنڈا کو فروغ دیا جاتا رہا۔ کتابیں لکھی گئیں ، رپورٹس شائع کی جاتی رہیں اور ڈاکیومینٹریز نشر کی گئیں۔ یہاں تک کہ نام لےلے کر ہدف ِ تنقید بنانے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ پورے منصوبے کے ساتھ معاشی تنگی ، سیاسی ابتری اور دہشت گردی کو بھی حیلے بہانے فوج ہی سے جوڑا جاتا رہا۔ حالانکہ پوری دنیا میں دہشت گردی کو روکنے کے لیے جتنی قربانیاں افواج ِ پاکستان نے پیش کیں اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
انٹرنیشنل افئیرز سے تھوڑی بہت دلچسپی رکھنے والا شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جسے ففتھ جنریشن وار کے بارے معلومات نہ ہوں۔ دنیا کی ہر بڑی قوت بلین ڈالرز اس پر خرچ کرتی ہے۔ اس وار میں بڑے بڑے تھنک ٹینکس ، ریسرچ سینٹرز اور ان کے نیٹ ورک اپنے اپنے ملکوں کے مفاد میں ہر وقت سرگرم عمل رہتے ہیں۔ یہ جنگ مخالف اور اہم ممالک کے بارے لمحہ بہ لمحہ اور قدم بہ قدم معلومات حاصل کرتے رہنے اور اس معلومات کا تجزیہ کرکے ضروری اقدامات اٹھانے کا کبھی نہ تھمنے والا ایک ایسا سلسلہ ہے جس نے ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کو بے بس کر کے رکھ دیا ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ پاکستان میں اس کا سب سے زیادہ نشانہ ہماری افواج کو ہی بنایا گیا ہے۔ کبھی داخلی محاذ پر انگیج کر کے اور کبھی خارجی مورچوں پر اور کبھی اندرونی نظریاتی خلفشار کا نشانہ بنا کر ۔ اس کے باوجود افواج ِ پاکستان نے عسکری ساز و سامان سے لیکر تربیت تک اور تربیت سے لیکر میدان ِ عمل تک ملک کی سلامتی اوربقاءکی جنگ پوری جوانمردی اور کامیابی سے لڑی ہے۔ ہمارے شہداءکے ایثار اور غازیوں کی تاریخی مزاحمت نے ہمارے دشمنوں کو چین کی نیند سونے نہیں دیا۔ پاکستان کے ایٹمی قوت بن جانے کے بعد سے تو ان کے دل و دماغ جیسے پاکستان کے بارے ناپاک خیالوں سے کبھی نکل ہی نہ پائے ہوں ۔ افواج ِ پاکستان کے جذبہءشہادت، موت سے بے خوفی اور عوام کے فوج پر بھروسہ کے حوالے سے تحقیق پر بے شمار وسائل خرچ کرنے والی قوتوں نے ہمارے عسکری اداروں، سکیورٹی ایجنسیز اور اکنامک وینچرز سے لیکر داخلی و خارجہ پالیسیوں تک ہر جگہ پر اور مسلسل حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جنگ میں یہی ہوتا ہے کہ مسلسل اٹیک کرنے والے حریف کا کوئی نہ کوئی وار چل جانا ناممکن نہیں ہوتا۔ یہی کچھ ہمارے ساتھ 9 مئی کو بھی ہوا ہے۔ مجھے یہ ماننے میں بھی کوئی عار نہیں کہ اس دفعہ ان کا وار کارگر رہا ہے اور وار بھی سیدھا ہمارے دل کی نازک رگوں پر کیا گیا ہے۔ وہ خلیج جو کبھی کسی آمریت کے دور میں بھی پیدا نہیں ہوئی تھی آج پوری بے دردی اور بے حسی کے ساتھ سامنے آگئی ہے۔ خاص طور پر شہداءکی یادگاروں پر رقیق حملوں نے سیدھا ہماری پیشانیوں پر زخم لگائے ہیں۔ میرے جیسے لوگوں کے لیے اب تک یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے وطن ِ پاک کی حفاظت کرنے والے عظیم سپوتوں کی تکریم ہمارے عوام کے ایک خاص جتھے کی نظروں میں باقی نہیں رہی۔ لیکن پھر میں خود کو حوصلہ دیتا ہوں کیونکہ بطور ایک عوامی نبض شناس کے میں جانتا ہوں کہ یہ تو دشمن کے ورغلانے میں آئے ہوئے صرف چند سو یا چند ہزار سوشل میڈیا پر پیدا ہونے والے اور ٹک ٹاک کھیل کر جوان ہونے والے وہ بے شعور اور بےحس لوگ ہیں جن کے نزدیک شاید دین اور ایمان کی بھی کوئی وقعت نہیں رہی۔ ان کو کیا پتہ کہ وطن کی حفاظت پر مامور پہاڑ حوصلوں کے مالک ہمارے کڑیل جوان کس طرح برستی گولیوں کے سامنے سینہ تانے دشمنوں کو ان کی کچھاروں میں اتر کر جہنم واصل کرتے ہیں۔ ان غازیوں کے جِلَو میں جب شہداءکے جسد ہائے خاکی ماں باپ کے حوالے کیے جاتے ہیں تو ان کے عظیم والدین کس طرح خود کو رب کے حضور سرخرو پاتے ہیں۔ فیس بک پر بیٹھی ہماری نوجوان نسل کے لیے اس احساس کو جاننا اور سمجھنا بہت مشکل ہے کہ کیسے کوئی محاذ جنگ میں اترنے سے پہلے اپنے ماں باپ ، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں سے الوداعی مکالمہ کرتا ہے۔