ترکی تمام۔
کچھ دن پہلے کی بات ہے ، سرگودھا میں ایک مسیحی تاجر کو توہین قرآن کے الزام میں ہجوم نے مار مار کر ہلاک کر دیا۔ مارنے والے سینکڑوں تھے اور انہوں نے مسیحیوں کی املاک بھی جلا دیں۔ بعدازاں کسی کا بیان آیا کہ سانحہ کسی کی غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔ اب کل سوات میں سیالکوٹ سے آئے ہوئے شخص کو ہزاروں کے ہجوم نے زندہ جلا دیا۔ بتایا گیا کہ وہ سیالکوٹ سے یہاں قرآن کی توہین کرنے آیا تھا۔
ایک رپورٹ ہے کہ پاکستان کی جیلوں میں دو ہزار سے زیادہ افراد توہین رسالت کے جرم یا الزام میں قید ہیں۔ دو ہزار سے زیادہ؟۔ بخدا ، توہین رسالت یا توہین قرآن کے اتنے واقعات کل جہان میں ملا کر بھی نہیں ہوتے ہوں گے جتنے اسلام کے واحد قلعے پاکستان میں ہوئے۔ سیالکوٹ سے یاد آیا، وہاں ایک سری لنکن افسر کو بھی توہین رسالت کے جرم میں اسی طرح ’’لینچ‘‘ کر دیا گیا تھا۔ اور بعدازاں پتہ چلا کہ قاتلوں کے سرغنے کو اس نے کام چوری کے الزام پر ڈانٹا تھا جس کا تاوان اسے زندہ جل کر ادا کرنا پڑا۔
علمائے کرام روشنی ڈالیں کہ دنیا میں اسلام کے سب سے بڑے قلعے میں توہین قران کے واقعات اتنی زیادہ تعداد میں کیوں ہوتے ہیں۔؟
سوات پرامن پرسکون شہریوں کی نسبت سے مشہور تھا۔ پھر وہاں صوفی محمد جیسے جنونی کا ظہور ہوا۔ صوفی محمد پہلے جماعت اسلامی میں تھے، پھر ذہنی طور پر حد سے زیادہ غیر متوازن ہونے کی وجہ سے جماعت سے نکال دئیے گئے۔ صوفی محمد نے اپنے ہزاروں کارکن سرعام جلوس کی شکل میں افغانستان لے جا کر کھلے میدان میں امریکی بمبار جہازوں کو پیش کر دئیے۔ بمباری میں وہ سب کے سب مارے گئے۔
صوفی محمد کے بعد ان کا داماد ملا فضل اللہ نمودار ہوا۔ وہ ایک بدنام جرائم پیشہ شخص اور گینگسٹر تھا۔ اس کے دستوں نے سارے سوات پر قبضہ کر لیا یہاں تک کہ ہزارہ ڈویڑن کے بھی اس کے قبضے میں جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔
پھر شور اٹھا کہ سخت ترین فوجی آپریشن ہو گا۔ یہ شور کئی ہفتے جاری رہا۔ ملا فضل اللہ اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ افغانستان فرار ہو گیا۔ جب ملا کا آخری آدمی بھی پاکستان سے نکل گیا تو جنرل کیانی نے زبردست آپریشن شروع کر دیا۔ پورا سوات انسانی آبادی سے خالی ہو گیا۔
ملا فضل اللہ کا ایک بھی شخص اس آپریشن کے موقع پر سوات میں موجود نہیں تھا، پھر یہ زبردست آپریشن کس کے خلاف ہوا۔ برمودا ٹرائی اینگل کا مسئلہ تو حل ہو گیا، پتہ چل گیا کہ سرد جنگ کے زمانے میں امریکہ نے یہاں مورچہ لگایا تھا اور اس پر طرح طرح کے اسرار کے پردے ڈال دئیے۔ سوات آپریشن کس کے خلاف ہوا، یہ راز ابھی کوئی سیاسی سائنس دان نہیں کھول سکا۔ شاید خود جنرل کیانی صاحب ہی کے دل میں خیال آ جائے اور وہ اس راز سے پردہ اٹھا دیں۔ ان کے پاس ’’سقوط ایبٹ آباد‘‘ عرف اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا راز بھی محفوظ ہے۔
سوات آپریشن سے لاکھوں افراد ہمیشہ کیلئے اجڑ گئے اور سب سے بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ یہاں طالبان اور اس کا سیاسی ونگ پی ٹی آئی پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور ہو گئے۔ اب سوات کی سیاحت کیلئے اس ’’حکمران اتحاد‘‘ سے اجازت نامہ لینا پڑتا ہے ورنہ زندہ جلائے جانے کا خدشہ ہے۔
_____
سوات، مالاکنڈ، ٹانک، ڈیرہ اسمعٰیل خاں سمیت صوبے کے کئی علاقوں پر حکمران پارٹی کا اقتدار قائم ہو چکا ہے اور مستحکم تر ہوتا جا رہا ہے۔ ’’حکمران پارٹی‘‘ نے پولیس ناکے ختم کر کے اپنے ناکے لگا دئیے ہیں اور جگہ جگہ حکمران پارٹی کی عدالتیں بھی قائم ہیں، لڑکے بالوں کے بال لمبے ہوں تو موقع پر مناسب ٹھکائی کر کے بال کاٹنے ، عورتوں کو کوڑے مارنے کی جملہ سہولیات ہر جگہ دستیاب ہیں۔ اغوا برائے تاوان کا سارا کاروبار اب سرکاری شعبے میں چلا گیا ہے تاہم پرائیویٹ افراد بھی اپنے کسی مخالف کو اغوا کر کے حساب برابر کرنا چاہیں تو حکمراں پارٹی کے ساتھ سودا طے کر کے یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ ہر قسم کا نشہ اب ہر جگہ بآسانی دستیاب ہے۔ پولیس تھانوں کی دیوار کے ساتھ دکانیں کھلی ہوئی ہیں، اور پولیس کی مجال نہیں کہ ہاتھ کیا، نظر بھی ڈال سکے۔ ’’حکمران پارٹی‘‘ خود پولیس والوں کو ’’توہین‘‘ کے جرم میں زندہ جلوا سکتی ہے۔
اس حکمران پارٹی کے جن ارکان نے داسو میں چینی انجینئروں کو قتل کیا تھا، وہ اب ملّا ہیبت اللہ امیر حکمران پارٹی مقیم کابل کی پناہ میں ہیں۔ پاکستان نے ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا جو ملّا صاحب نے مسترد کر دیا۔ ان قاتلوں سے گزارش ہے کہ کابل میں پناہ گیری کی اب چنداں حاجت نہیں، پختونخواہ کے بیشتر علاقے اب ’’حقیقی آزادی‘‘ سے ہمکنار ہو چکے ہیں، تشریف لائیں، کوئی اندیشہ نہیں، مال غنیمت کے مواقع ان گنت موجود ہیں البتہ۔
پختون خواہ میں حکمراں جماعت کی اتحادی ذیلی حکمران پارٹی نے اپنے طور پر حقیقی آزادی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ خود وزیر اعلیٰ گرڈ سٹیشنوں پر قبضے کرتے اور کرواتے اور پاکستان کی بجلی بند کرنے کے ارادے ظاہر فرماتے ہیں اور پولیس کو حکم ہے کہ اگر کوئی گرڈ سٹیشن پر قبضہ کرے تو گرفتاری تو دور کی بات، اس پر ایف آئی آر کاٹنے کا بھی نہ سوچا جائے۔ وزیر اعلیٰ بجلی چوری کی عام اجازت پہلے ہی دے چکے ہیں۔ ریاستی رٹ کی ترکی کب کی تمام ہو چکی۔