• news

نان فائلرز پر مزید پابندیوں کی تجویز

سینٹ کی مجلس قائمہ برائے خزانہ کے اجلاس میں ایسے ریٹیلرز پر جرمانے کرنے کے حوالے سے تجویز کا جائزہ لیا گیا جو ٹیکس مہر لگائے بغیرسگریٹ فروخت کرتے ہیں، ای لیکوڈز کی شکایات پر بھی غور، نکوٹین پاﺅچز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز کی منظوری دیدی گئی، اجلاس میں ٹیلی کام سیکٹرز کی طرف سے اپنے ایشوز پیش کیے گئے جن میں ایڈوانس ٹیکس، ہینڈ سیٹس پر جی ایس ٹی کا نفاذ شامل ہے۔ نان فائلر کے پری پیڈ کارڈ لوڈ کرنے پر 75 فیصد ٹیکس کٹوٹی کرنے کی تجویز پیش کی گئی جبکہ سم بلاک کرنے پر بحث اجلاس کا حصہ رہی۔
دگرگوں ہوئی معیشت کے پیش نظر اب ضروری ہو چکا ہے کہ فائلرز اور نان فائلرز کے ذمہ جو ٹیکس واجب الادا ہو‘ اس سے ہر صورت ٹیکس وصول کیا جائے۔ مگر یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں کہ حکومت ٹیکس کی وصولی کیلئے سارا دباﺅ نان فالرز پر ڈال کر انکی مشکلات میں مزید اضافہ کرتی رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت نان فائلرز ہی سب سے زیادہ ٹیکس ادا کر رہے ہیں جو یوٹیلٹی بلوں میں لگائے گئے غیرواجب ٹیکس بھی پابندی سے ادا کر رہے ہیں بالخصوص تنخواہ دار طبقے کی تو تنخواہ ہی ٹیکس کاٹ کر جاری کی جاتی ہے۔ مختلف ٹیکسز ادا کرنے کے باوجود یہ طبقہ نان فائلرز کی کیٹگری میں آتا ہے جبکہ ایوانوں میں بیٹھے فائلرز کو بجلی‘ گیس‘ پٹرول بھی مفت ملتا ہے۔ اس طرح وہ یوٹیلٹی بل اور ان میں واجب الادا ٹیکسوں کی ادائیگی سے بھی بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے جنہوں نے اسمبلی کے ایک بجٹ اجلاس کے دوران اپنی تقریر میں یہ انکشاف کیا تھا کہ منتخب ایوانوں کے ساڑھے گیارہ سو ارکان میں سے ساڑھے آٹھ سو ارکان ٹیکس کی مد میں ایک دھیلا تک ادا نہیں کرتے۔ انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کی زحمت کیوں گوارا نہیں کی جاتی۔ عام آدمی پندرہ بیس ہزار ماہانا کما کر بجلی‘ گیس اور پٹرول کے بھاری اخراجات اپنی جیب سے پورے کرتا ہے ‘ بھاری ٹیکس کی ادائیگی کے باوجود وہ بنیادی سہولیات سے محروم ہے‘ جبکہ ایوانوں میں بیٹھے اشرافیہ لاکھوں روپے تنخواہ اور مفت مراعات لینے کے باوجود ٹیکس دینا گوارا نہیں کرتے۔ بے شک نان فائلرز کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کی ضرورت ہے ‘ مگر صرف انہیں قربانی کا بکرا بنانا اور ایوانوں میں بیٹھے فائلرز کو چھوٹ دینا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔اگریہ سب کچھ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت کیا جا رہا ہے تو اس کا دائرہ ایوانوں میں بیٹھے اشرافیہ طبقات تک بڑھایا جائے جس کا تقاضا آئی ایم ایف بھی کئی بار کر چکا ہے۔ لہٰذا نان فائلر کے پری پیڈ کارڈ لوڈ کرنے پر 75 فیصد ٹیکس کٹوٹی کرنے اور انکی سم بند کرنے کی تجویزپر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

ای پیپر-دی نیشن