گوجر خان کا سپوت
ان گنت دلآویز صلاحیتوں کے حامل اور اعلیٰ اخلاقی اقدار پر یقینِ کامل رکھنے والے راجہ پرویز اشرف کو وقار و متانت کا کوہِ گراں کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔ وہ اپنی شِیرِیں سخَنی سے اوروں کے دلوں میں نقب لگانے کے فن میں یَدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ وہ نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کا عملی نمونہ بن کر دوستوں اور حریفوں کو سحر زدہ کرنے پر بھی قادر ہیں۔ وہ سماجی بندھنوں کی تہہ در تہہ نزاکتوں کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ سیاسی شطرنج کے ایک تجربہ کار، زیرک اور منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے اپنا سیاسی قبلہ ہمیشہ سیدھا رکھا۔ حالاتِ کی ستم ظریفیوں کے سبب، جب صوبہ پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی عوام میں اپنی مقبولیت کا بھرم کھونے لگی تو حسبِ رواج اس کے بڑے بڑے قائدین اپنے سیاسی مستقبل کو مقدم جانتے ہوئے پارٹی کو داغ مفارقت دے گئے مگر راجہ پرویز اشرف اِن نرم گرم حالات میں خم ٹھونک کر اپنی جماعت اور رہبروں کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ ترغیبات اور دباو¿ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے انہوں نے اپنی سیاسی وابستگی کو نیک نیتی اور دیانتداری سے اپنی پارٹی کے ساتھ جوڑے رکھا۔ اپنی اِسی خوبی کی بدولت ان کو پارٹی کے اندر اور باہر قدر و منزلت اور عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اِنہی گوناگوں اوصاف کی بنا پر وہ اپنے حلقہءانتخاب میں بھی منفرد و اعلیٰ مقام حاصل کرنے میں کامیاب و کامران ٹھہرتے ہیں۔
وہ 2018ءکے عام انتخابات میں تند و تیز بادِ سَموم، گردباد اور طوفانِ اَبرِ باراں کی بے رحمیوں اور قہرسامانیوں کے باوجود ان کے انتھک پنکھ مسلسل محوِ پرواز رہے اور انہوں نے اپنے عزمِ صمیم کی بدولت حالات کے دھارے کا رخ بدل کر جیت اپنے نام کر کے ہی دم لیا۔ پھر 8 فروری 2024ءکو ہونے والے عام انتخابات کے دوران رائے دہندگان کو اپنے حلقہءانتخاب میں سر انجام دی گئی اپنی سابقہ خدمات کا پر باوقار انداز میں تذکرہ کرکے ووٹ دینے کی درخواستیں کیں۔ انہوں نے جیت کی صورت میں حلقے میں مزید خدمت کرنے کے مشن پر بات ضرور کی مگر ووٹروں کو نہ کوئی سبز باغ دکھائے اور نہ ہی اپنی جماعت کے قائدین کا ذکر کرنا بھولے۔
ہمارے ہاں کسی بھی بڑی جماعت کی یہلی صف میں مسلسل موجود رہنے کی روایتیں اور مثالیں بہت کم ملتی ہیں مگر راجہ پرویز اشرف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ جماعتی قیادت کے ساتھ مشاورت کے عمل میں ہمیشہ شریک رہتے ہیں اور ان کے مشوروں کو شرف قبولیت بھی بخشا جاتا ہے۔ وہ اپنی جماعت کی ایما پر دوسری سیاسی جماعتوں کے قائدین سے مذاکرات کے عمل میں شریک ہو کر اپنی سخَن آرائی کا لوہا بھی بارہا منوا چکے ہیں۔
اگر انہوں نے پارٹی قیادت سے وفا کی ہے تو قیادت نے بھی وفا کا صلہ وفا سے دینے میں بخل سے کام نہیں لیا۔ پی پی پی کی قیادت نے انکی فطری صلاحیت، جماعت سے وفاداری اور استعداد کار سے متاثر ہو کر 2012ءمیں انہیں ملک کے پچیسویں وزیراعظم منتخب ہونے کا اعزاز بخشا۔ ضلع راولپنڈی کے حوالے سے بطور وزیراعظم ان کا نام سرفہرست آتا ہے۔ اپنے پیش رو، اسد قیصر کے مستعفی ہونے کے بعد 16 اپریل 2022 کو بائیسویں سپیکر قومی اسمبلی کی حیثیت سے عہدے پر متمکن ہوئے۔ اس نازک اور پر آشوب دور میں بھی انہوں نے اپنی خداداد قابلیت کے جوہر دکھائے۔بہت سے دوسرے ممالک کی طرح جمہوریت اور جمہوری روایات کے معاملات میں ہم ام الجمہوریت کہلانے والی ریاست، برطانیہ کی پیروی کرتے ہیں۔ انتخابات کی گہماگہمی کے دوران راجہ پرویز اشرف بڑے دلچسپ پیرائے میں بتا رہے تھے کہ برطانیہ میں یہ روایت رہی ہے کہ سپیکر اسمبلی کے خلاف عام انتخابات میں کوئی مخالف جماعت احتراماً اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرتی۔ راجہ صاحب کو بخوبی معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے مروجہ طریقہءکار میں اِس طرح کی روایتیں معمولی فائدے کی خاطر بھینٹ چڑھا دی جاتی ہیں۔ واضح رہے کہ 8 فروری کو ہونیوالے انتخابات میں حلقہ 52 سے تمام سرکردہ جماعتوں کے امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔ آزاد امیدواران اِنکے علاوہ تھے۔ گوجر خان کو شہیدوں اور غازیوں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔ دو نشانِ حیدر پانے کا اعزاز رکھنے والے، کیپٹن راجہ محمد سرور شہید اور سوار محمد حسین شہید کا تعلق اسی تحصیل سے ہے۔ بہت سے آرمی افسروں نے جنرل کے عہدے پر ترقی پائی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی تو راجہ پرویز اشرف کے وزارتِ عظمیٰ کے دور میں چیف آف آرمی سٹاف بھی تھے۔ راجہ پرویز اشرف کو یہ کریڈٹ بہرحال دیا جانا چاہیے کہ اسی دور میں انہوں نے اپنا ذاتی اثر رسوخ استعمال کرکے عسکری ادارے کی ملکیتی زمین پنجاب یونیورسٹی، پوٹھوہار کیمپس کےلئے حاصل کی۔ یوں تو ترقیاتی کام گوجر خان کی ہر سیاسی جماعت کی لیڈرشپ نے کرائے ہیں مگر سیاسی قد کاٹھ میں برتری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے راجہ پرویز اشرف نے میگا پراجیکٹس کو فروغ دیا۔ اِس حوالے سے ان کے کٹڑ سیاسی مخالفین بھی ان کی تحسین و ستائش کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
تحصیل گوجر خان کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ اس کی لیڈرشپ سیاسی مسابقت کو ذاتی مخاصمت میں تبدیل نہیں کرتی۔ انتخابی کمپین کے دوران ہلکی پھلکی تنقید تو کرتے ہیں مگر کیچڑ نہیں اچھالتے۔ راجہ پرویز اشرف کو تو اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا ظرف عطا کیا ہے کہ وہ تو اپنے سیاسی حریفوں پر ہلکی پھلکی تنقید کرنے کا تکلف بھی گوارا نہیں کرتے۔ یہی خوبی ان کو دوسرے ہمعصر سیاست کاروں کے مقابلے میں ایک مدبر اور اعلیٰ ظرف سیاست دان کے طور پر ایک منفرد اور مثبت انداز میں پیش کرتی ہے۔ وہ اپنے حلقہءانتخاب سے فتح یابی کے بعد کبھی تکبر میں نہیں آتے اور نہ ہی شکست کی صورت میں اپنے سیاسی حریفوں پر بہتان تراشی کرتے ہیں۔ ماضی بعید میں ہر ہار کو وہ دل پر لینے کی بجائے چیلنج کے طور پر لیتے رہے ہیں اور مایوس ہو کر گھر بیٹھنے کی بجائے اپنے حلقے کے عوام کے ساتھ بہتر رابطہ کاری پر یقین رکھتے رہے ہیں۔
پی پی پی نے مسلم لیگ کی حلیف جماعت ہونے کے باوجود ابھی تک وزارتیں لینے میں بوجہ دلچسپی نہیں لی۔ جب کبھی پارٹی نے پالیسی بدلی تو لگتا ہے کہ راجہ پرویز اشرف کو حسبِ سابق کسی اہم ذمہ داری سے ضرور نوازا جائےگا۔