• news

آپریشن عزمِ استحکام اور سانحۂ سوات

عید گزر جانے کے چند ہی دن بعد ایک اہم چینی وزیر کی پاکستان آمد اور ان کی وطن عزیز میں مصروفیتوں کے اختتام پر ’آپریشن عزمِ استحکام‘ کے اعلان نے مجھے ہرگز حیران نہیں کیا۔ چند ماہ قبل بشام میں چینی انجینئروں پر ہوئے دہشت گرد حملے اور اس کے نتیجے میں ہوئی ہلاکتوں کے بعد سفارتی سطح پر اہم پیشرفت ہوئی تھی۔ مذکورہ پیشرفت کی ’حساسیت‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے اشاروں کنایوں میں اس امکان کا اظہار کرتا رہا ہوں کہ عیدالاضحی کے چند ہی دن بعد دہشت گردوں کے خلاف ایک بھرپور آپریشن کا آغاز ہوسکتا ہے۔میری معلومات درست ثابت ہوئیں۔ اس کے بارے میں اطمینان کے اظہار پر اکتفا کروں گا۔
’میں نے تو پہلے ہی بتادیا تھا‘ والی رعونت سے ربّ کریم نے ہمیشہ محفوظ رکھا ہے۔ تفصیلات میں جائے بغیر محض یہ لکھنا کافی ہوگا کہ بشام میں اپنے شہریوں پر ہوئے حملے کے بعد چین محض پاکستانی حکام ہی سے شکوہ شکایات کے اظہار تک محدود نہیں رہا۔ کابل انتظامیہ سے بھی براہ راست روابط ہوئے اور انھیں واضح الفاظ میں بتادیا گیا کہ پاکستان میں مختلف ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے چینی ہنرمندوں پر دہشت گردحملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں پناہ گزین پاکستانی طالبان کی تنظیموں کی جانب سے ہورہی ہے۔ کابل میں بیٹھے حاکموں کو انھیں روکنا ہوگا۔
چین سے اس ضمن میں جو روابط ہوئے ان کی تشہیرنہیں ہوئی۔ امریکا کی طرح افغانستان کے روبرو رعونت بھرا ’دشمن یا دوست؟‘ والا سوال بھی نہیں اٹھایا گیا جس کا سامنا ہمیں نائن الیون کے بعد کرنا پڑا تھا۔ اپنی بات منوانے کے لیے چین دھونس جمانے کا عادی نہیں۔ انتہائی تحمل وبردباری سے اپنا مدعا سادہ دلائل کے ساتھ متعلقہ ممالک تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ براہ راست فوجی مداخلت کی تڑی لگائے بغیر متعلقہ ملک کو یہ سمجھانے کی کوشش ہوتی ہے کہ چین اگر اس سے لاتعلق ہوگیا تو یہ لاتعلقی متعلقہ ملک کے طویل المدت اقتصادی مفادات کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوگی ۔ تعاون کی بدولت چین اور متعلقہ ملک کی باہمی ترقی اور استحکام کے امکانات اجاگر کرنے پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ افغانستان کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ اپنایا گیا اور وہاں کی حکومت نے بالآخر یہ وعدہ کیا کہ وہ اپنے ہاں موجود پاکستانی طالبان پر نگاہ رکھے گی۔ ان میں سے چند افراد کو پاک-افغان سرحد سے کہیں دور موجود شہروں کو منتقل کرنے کے ارادے کا اظہار بھی ہوا ہے۔ ’آپریشن عزمِ استحکام‘ کو کامیاب بنانے کے لیے افغان حکومت کی بھرپور معاونت درکار ہے۔وہ میسر نہ ہوئی تو دہشت گردی کے خلاف ماضی میں ہوئے کئی آپریشنوں کی طرح نئی پیش قدمی بھی طویل المدتی تناظر میں کاربے سود شمار ہوگی اور پاکستان اب اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
یہاں تک لکھنے کے بعد ہنر ابلاغ کا عاجز طالب علم ہوتے ہوئے یہ عرض گزارنا بھی لازمی شمار کرتا ہوں کہ بہتر حکمت عملی یہ ہوتی کہ ہم چینی وزیر کی پاکستان آمد سے قبل یا اس کے بغیر ہی نئے آپریشن کا اعلان کردیتے۔
سالانہ بجٹ پیش ہونے سے چند ہی روز قبل وزیر اعظم شہباز شریف ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ چین کے ایک بھرپور دورے کے بعد وطن لوٹے تھے۔ وہاں سے لوٹنے کے بعد وفاقی کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کیمروں کے روبرو اس امرکا اعتراف کیا کہ ان کے دورئہ چین کے دوران ہوئی ملاقاتوں میں اعلیٰ ترین چینی حکام اور سرمایہ کار تواتر سے پاکستان میں اپنے ہنرمندوں کے تحفظ کی بابت فکرمندی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ہفتے کی رات ’آپریشن عزمِ استحکام‘ کا اعلان کرنے والی پریس ریلیز نے تاثر یہ پھیلایا ہے کہ مذکورہ آپریشن کا فیصلہ چینی دوستوں کے تقاضوں کی بدولت ہوا۔ فرض کیا اگر ان کے ہنرمندوں پر دہشت گرد حملے نہ ہورہے ہوتے تو شاید ہم اس کی ضرورت محسوس نہ کرتے۔
چینی وزیر کی تسلی کے لیے ہماری تمام سیاسی جما عتوں (تحریک انصاف سمیت) کے نمائندوں کی جانب سے ان کے ساتھ ہوئی ملاقات نے بھی یہ افسوس ناک پیغام دیا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اپنے تئیں چند بنیادی مسائل کو قوم کی اجتماعی ترجیحات میں شامل کرنے سے کتراتی ہیں جن کے حل کے لیے باہمی اختلافات کو پس پشت رکھنا درکار ہے۔ محاورے والا پانی سرسے گزرجانے کے بعد ’غیر ملکی سرمایہ کاری‘ کو یقینی بنانے کے لیے دیگر ممالک سے آئے مہمانوں کے سامنے ’قومی یک جہتی‘ کا ماحول بنانے کی نیم دلانہ کوشش ہوتی ہے۔ یہ سوال اگرچہ اب بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ تحریک انصاف کے نمائندوں کو سیاسی جماعتوں کے وفد میں شامل ہونے کو بالآخر ’کس‘ نے قائل کیا اور تحریک انصاف اپنے تعاون کے بدلے میں اب کیا توقع باندھے ہوئی ہے۔
آپریشن عزمِ استحکام کا اعلان نہ ہوا ہوتاتو میں آج کا کالم فقط سوات میں ہوئے سانحے پر مرکوز رکھتا۔ 2009ء میں یہاں انتہا پسندوں کے خلاف ایک بھرپور آپریشن ہوا تھا۔ اس کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے ہزاروں افراد اپنے گھر چھوڑ کر دوسرے شہروں میں پناہ گزین ہونے کو مجبور ہوئے تھے۔ پیدل چلتے قافلوں کی بے بسی مجھے گھنٹوں اداس رکھتی تھی۔ بے گھر ہوئے افراد کی مردان جیسے شہروں کے باسیوں نے جس انداز میں دیکھ بھال کی اس نے مجھے خوش گوار حد تک حیران کیا۔
2009ء کے آپریشن کا بطور ایک متحرک رپورٹر مسلسل مشاہدہ کرتے ہوئے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سوات کے مکینوں کو اس وحشت ناک غصے کے لیے اشتعال دلایا جاسکتا ہے جس کا نشانہ مدین کی سڑکوں پر سیالکوٹ سے آیا ایک ’سیاح‘ بنا۔ مذکورہ واقعہ کی تفصیلات میں نے رپورٹر کے تجسس کے ساتھ بہت لگن سے جمع کی ہیں۔ ان کے ذکر میں الجھنے کے بجائے اس امر پر اصرار کرنے کومجبورہوں کہ جو اندوہناک واقعہ ہوا وہ ’اچانک‘ ہوا نظر نہیں آرہا۔ اس واقعہ سے جڑی چند اہم جزئیات واضح انداز میں بلکہ عندیہ دے رہی ہیں کہ ہجوم کو مشتعل بنانے کی نہایت ہوشیاری سے منصوبہ بندی ہوئی تھی۔ میری دانست میں ’آپریشن عزمِ استحکام‘ کی کامیابی کے لیے لازمی ہے کہ مدین میں ہوئے واقعہ کی ہر ممکن زاویے سے چھان بین ہو۔ اس کی بدولت میسر ہوئے نتائج کو ماہرین ابلاغ کی بھرپور مدد کے ساتھ عوام کے سامنے لایا جائے۔ یہ نہ ہوا تو دہشت گردی کے ’انفرادی واقعات‘ کے بجائے ہم ملک کے مختلف شہروں اور قصبوں میں ہجوم کے ہاتھوں ویسی ہی وحشت کے مظاہرے دیکھیں گے جو مدین میں رونما ہوئے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن