سوات واقعہ کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل
سوات کے علاقے مدین میں ایک شخص کو مبینہ طور پر توہین مذہب کے الزام میں قتل کرنے کے واقعے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دیدی گئی ہے۔جے آئی ٹی 9 ارکان پر مشتمل ہے، ایس پی انویسٹی گیشن کمیٹی کے سربراہ ہوں گے۔ 20 جون کو مدین میں لوگوں نے قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں ایک شخص کو تھانے جاکر تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر اسے جلا ڈالا تھا۔ کسی بھی شخص کے لیے اپنے مذہب کی توہین ناقابل برداشت ہے۔ بالعموم تمام مسلمان اور بالخصوص پاکستانی مسلمان اس حوالے سے زیادہ حساس ہیں۔ پاکستان کے قانون کے تحت توہینِ مذہب کے جرم کی سزا موت ہے۔ توہینِ مذہب یا توہینِ رسالت کرنے والے ملزم کو سزا دلانے کے لیے ایک قانونی طریقہ کار بھی موجود ہے۔ عدالتیں موجود ہیں جہاں ملزم کو صفائی کا موقع دیا جاتا ہے۔ اگر وہ مجرم ثابت ہو جائے تو سزا اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ اس سب کی موجودگی میں کسی کو یہ حق اور اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ خود ہی الزام لگائے، خود ہی عدالت بنے، خود وکالت کرے، خود جج بن کر فیصلہ سنائے اور خود ہی انتظامیہ کے طور پر سزا پر عمل بھی کردے۔ بدقسمتی سے مدین میں کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ وفاقی ادارے کی رپورٹ کے مطابق، ملزم ہوٹل میں تھا جہاں سے پولیس ملزم کو تھانے لے گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملزم کو تھانے لے جانا اہم غلطی تھی، متعلقہ ایس ایچ او نے کسی افسر سے رہنمائی حاصل نہیں کی اور نہ ملزم کو محفوظ مقام پرمنتقل کیا۔ پولیس نے ملزم کو 40 منٹ تک حراست میں رکھا، دوران حراست ملزم نے توہینِ مذہب کے الزام سے انکار کیا۔ پولیس نے دلیری سے ہجوم کو روکنے کی کوشش کی لیکن ہجوم پولیس پر حاوی رہااور یہ روح فرسا واقعہ ہوگیا۔ اس طرح کے واقعات ملک میں شدت پسندی میں اضافے کی غمازی کرتے ہیں۔ معاشرے میں عدم تحفظ بڑھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دنیا میں امیج کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ صورتحال ناقابلِ قبول اور ناقابلِ برداشت ہے۔ حالات پر قابو نہ پایا گیا تو معاشرہ طوائف الملوکی کی طرف بڑھتا جائے گا۔ ایسے منفی رجحانات کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت مدین واقعے کو ٹیسٹ کیس بنائے تاکہ عوام کو واضح طور پر یہ پیغام دیا جاسکے کہ کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔