• news

دہشت گردی کے خلاف ’آپریشن عزمِ استحکام‘ کی منظوری

پاکستان میں حالیہ برسوں میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ہونے والا اضافہ یہ بتاتا ہے کہ ہمیں اس عفریت پر قابو پانے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے کیونکہ امن دشمن عناصر تیزی سے اپنے مذموم ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک واردات ہفتے کی علی الصبح دیر زیریں کے علاقے میدان سوری میں ایف سی کی چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے کی شکل میں ہوئی جس میں دو اہلکار شہید ہوگئے۔ یہ واردات اپنی نوعیت کا صرف ایک واقعہ نہیں ہے۔ خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں ایسے واقعات مسلسل پیش آرہے ہیں۔ بلوچستان میں ہونے والی تخریب کاری کی کارروائیاں بھی ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ پنجاب میں بھی محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی کارروائیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کالعدم تنظیموں سے وابستہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔
اس سب پر قابو پانے کے لیے ایک ایسے جامع آپریشن کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی جو دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ ایک طرف قوم کو یہ یقین دلائے کہ سکیورٹی فورسز امن دشمن عناصر کے آگے بے بس نہیں ہیں اور دوسری جانب غیر ملکی سرمایہ کاروں کا تحفظ کا احساس فراہم کر کے پاکستان کی طرف راغب کرے۔ دہشت گردوں کے منہ زور ہونے کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہورہا ہے کہ چین جیسے مخلص دوست کے ساتھ ہمارے اقتصادی تعلقات فروغ نہیں پارہے تھے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے علاوہ بھی چینی حکومت اور سرمایہ کار پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن وہ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں امن و استحکام کی فضا قائم ہو تو معاملات کو آگے بڑھایا جائے۔ دہشت گرد اسی لیے چینی باشندوں پر کئی بار حملے کر چکے ہیں تاکہ وہ پاکستان کے غیر مستحکم ہونے کا پیغام دے سکیں۔
خیر، اب ’آپریشن عزمِ استحکام‘ کی منظوری دے کر حکومت نے بالآخر یہ فیصلہ کر ہی لیا ہے کہ دہشت گردوں کو نکیل ڈالنی ہی پڑے گی۔ اس سلسلے میں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے چاروں صوبوں سمیت تمام فریقین کے اتفاقِ رائے سے ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے انسدادِ دہشت گردی کی قومی مہم کو از سر نو متحرک کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم کی زیر صدارت قومی ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے جس اجلاس میں یہ اعلان کیا گیا اس میں وفاقی کابینہ کے اہم وزراء، چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، سروسز چیفس اور صوبوں کے چیف سیکرٹریز کے علاوہ اعلیٰ سول و فوجی حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران نے شرکت کی۔
اجلاس کے دوران انسداد دہشت گردی کی موجودہ جاری مہم کا تفصیلی جائزہ اور داخلی سلامتی کی صورتحال پر غور کیا گیا اور قومی ایکشن پلان کے کثیر الجہتی اصولوں پر پیشرفت کا بھی جائزہ لیا گیا۔ خاص طور پر اس پر عمل درآمد کے حوالے سے خامیوں کی نشاندہی اور قومی اتفاق رائے اور وسیع ہم آہنگی کی بنیاد پر انسداد دہشت گردی کی ایک جامع اور نئی جاندار حکمت عملی کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ آپریشن عزمِ استحکام جامع اور فیصلہ کن انداز میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کوششوں کو مربوط اور ہم آہنگ کرے گا۔ سیاسی و سفارتی دائرہ ہائے کار میں علاقائی تعاون کے ذریعے دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے کی کوششیں تیز کی جائیں گی۔ مسلح افواج کی تجدید اور بھرپور متحرک کوششوں کو تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مکمل تعاون سے آگے بڑھایا جائے گا جو دہشت گردی سے متعلقہ مقدمات کی مؤثر کارروائی میں رکاوٹ بننے والے قانونی خلا کو دور کرنے کے لیے مؤثر قانون سازی کے ذریعے باختیار ہوں گے اور دہشت گردوں کو مثالی سزائیں دی جائیں گی۔
اجلاس کے موقع پر ایپکس کمیٹی فورم نے اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی جنگ ہے جو قوم کی بقا اور بہبود کے لیے ناگزیر ہے۔ فورم نے فیصلہ کیا کہ کسی کو بھی ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اس سلسلے میں کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ فورم نے پاکستان میں چینی شہریوں کے لیے فول پروف سکیورٹی کو یقینی بنانے کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا۔ وزیراعظم کی منظوری کے بعد متعلقہ محکموں کو نئے ایس او پیز جاری کر دیے گئے جس سے پاکستان میں چینی شہریوں کو جامع سکیورٹی فراہم کرنے کے طریقہ کار میں اضافہ ہو گا۔
حکومت کو اس آپریشن کا اعلان بہت پہلے ہی کردینا چاہیے تھا تاکہ اس دوران جو بہت سا جانی و مالی نقصان ہوا اس پر قابو پایا جاسکتا لیکن دیر آید درست آید کے مصداق اب بھی اس فیصلے پر حکومت کی ستائش کی جانی چاہیے۔ اب اس سلسلے میں اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ آپریشن عزمِ استحکام کو شروع کرتے ہوئے جو دعوے کیے جارہے ہیں وہ صرف دعوے ہی نہیں رہیں گے بلکہ ان پر عمل درآمد بھی ہوگا۔ پاکستان اس وقت جس معاشی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اس سے نکلنے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ ملک کے اندر امن و استحکام ہو اور سرمایہ کار کسی خوف و خطر کے بغیر مختلف کاروباروں میں اپنا پیسہ لگا سکیں۔ اس حوالے سے سکیورٹی فورسز کو سول انتظامیہ اور حکومت سے جو تعاون درکار ہے وہ مہیا کیا جانا چاہیے تاکہ مذکورہ آپریشن کو کامیابی سے ہمکنار کر کے ملک کو درپیش اقتصادی مسائل کو حل کرنے کی راہ ہموار کی جاسکے۔

ای پیپر-دی نیشن