• news

سول بالا دستی، ابھی بہت دور کا معاملہ

لال حویلی والے شیخ رشید دعویدار ہیں کہ پاکستان میں کوئی سیاستدان ایسا نہیں جو گیٹ نمبر 4کی پیداوار نہ ہو۔یہ گیٹ GHQ میں سویلین کے آنے جانے کا راستہ ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ ان کا مراد سعید اور شیر افضل مروت کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کہنے لگے۔ میں صف اول کی قیادت کی بات کر رہا ہوں۔ وہ اپنے دعوے کی تصدیق میں بہت کچھ آف دی ریکارڈ کہنے کو تیار بیٹھے تھے۔ کہنے لگے۔ اسی سچ کے باعث مجھ سے نواب اکبر خاں بگٹی اور ولی خاں بھی ناراض ہوئے لیکن۔۔۔۔
سوال۔ یہ فارم 45اور 47کیا ہیں؟جواب۔ اس کا مطلب ہے کہ سب کچھ ووٹروں کے اختیار میں نہیں۔ادھر کسی اورکے پاس ویٹو کا اختیار بھی ہے۔ پڑوس میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے احوال سنیں! ارون دتی رائے ہندوستان کی معروف رائٹر ہیں۔ انہیں برطانیہ کا ممتاز ترین ادبی پوکرپرائز مل چکا ہے۔ وہ ہندوستان کی پہلی خاتون ہیں جنہیں یہ انعام ملا۔وہ انگریزی زبان میں لکھتی ہیں۔ انکے ناولوں کااردو سمیت دنیا کی بیشتر زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ ان کے بارے میں ہندوستان کے ادیب اور ممتاز ناول نگار مشرف عالم ذوقی لکھتے ہیں: ’’ارون دتی رائے زندگی اور اس سے جڑی چھوٹی چھوٹی حقیقتوں پر چونک اٹھتی ہیں‘‘۔ سو آپ بھی ارون دتی رائے کے ہندوستانی جمہوریت پر تجزیے اور تبصرے پر چونکیے ضرور۔ وہ لکھتی ہیں ’’یہاں (ہندوستانی جمہوریت میں)ملٹی نیشنل کمپنیاں یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ ووٹروں نے کس سیاسی جماعت کو جتوانا ہے‘‘۔ پاکستان میں یہ فیصلہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے۔ چونکیے نہیں! امریکہ میں بھی ایسے فیصلوں میں ان کی اسٹیبلشمنٹ اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بالکل لا تعلق نہیں۔ بعض اوقات وہ یہ فیصلے مل جل کر کرتے ہیں۔پھر بلا واسطہ ا ور بالواسطہ بھی بہت کچھ ہے الیکشنوں میں اثر انداز ہونے والا۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ پانی کے نیچے بہت کچھ ہوتا ہے جو ہمیں صاف نظر نہیں آتا۔ 2018ء کے الیکشن میں اور الیکشن سے پہلے جہانگیر ترین کا کردار کیا تھا؟ وہ کن کے کہنے پر اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہا تھا؟ خلق خدا نے دیکھا کہ الیکشن سے پہلے الیکٹیبلز اور الیکشن کے بعد منتخب ارکان اسمبلی دن دیہاڑے بڑی تعداد میں بنی غالہ ڈھوئے گئے۔ 
بات پہلے دن سے شروع کرتے ہیں۔ 14اگست 1947ء کو حضرت قائد اعظم کو ایک نوجوان فوجی افسر کو ڈانٹنا پڑاجس نے یہ شکایت کی تھی۔ ’’بجائے اسکے کہ ہمیں ان عہدوں پر وطن کی خدمت کا موقعہ دیا جائے جہاں ہماری فطری صلاحیتوں اور دیسی فطانت کا بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکے۔ اہم عہدے ماضی کی طرح ہی غیر ملکیوں کو دیئے جا رہے ہیں۔ تینوں جنگی سروسز میں برطانوی افسران کو سربراہ بنایا گیا ہے۔ کلیدی عہدوں پر غیر ملکی متعین ہیں۔ ہم یہ نہیں سمجھتے تھے کہ پاکستان کے امور ایسے ہی چلائے جائیں گے‘‘۔ حضرت قائد اعظم کا جواب محکم تھا۔ انہوں نے اس افسر پر واضح کیا کہ وہ یہ نہ بھولے ’’مسلح افواج عوام کی خادم ہیں اور قومی پالیسی آپ نہیں بناتے ہم سویلین افراد ان مسائل کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ ہمارا کام ہے کہ ان فرائض کا تعین کریں جو آپ کو تفویض کئے جاتے ہیں‘‘۔ 
جناح کے بعد آنے والے سیاستدان جناح کا پرتو تو کیا، کچھ بھی نہ نکلے۔وہ بالکل زیرو ثابت ہوئے۔ کشمیر سے متعلق حکومت کی عسکری پالیسی پر صاف انکار کرنے کے باوجود گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین اور وزیر اعظم لیاقت علی خاں،جنرل ڈگلس کو اس کے عہدے سے نہ ہٹا سکے۔ 1951ء میں وزیر اعظم لیاقت علی خاں کے ہاتھوں جنرل ایوب خاں کی بطور چیف آف آرمی سٹاف تقرری بھی کچھ صاف شفاف نہ تھی۔ پھر تاریخ میں پہلی بار یہ حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا۔ ایک حاضر سروس کمانڈر انچیف جنرل ایوب خاں کو وزارت دفاع کا قلمدان سونپ دیا گیا۔ اب وہ آپ ہی افسر تھا اور آپ ہی اپنا ماتحت۔کالم نگار دو ناغوں کے بعد یہ کالم لکھ رہا ہے۔ کچھ آنکھوں کے مسائل تھے اور کچھ دیگر مسائل بھی۔ پڑھنے والوں سے معذرت۔ 
عید کی چھٹیوں میں کم ملنا ملانا ہوا۔ پھر بھی کچھ جیتے ہوئے ن لیگی بھی دیکھے اور کچھ ہارے ہوئے بھی۔ عمران خان کے کارکن بھی نظر آئے اور انکے چاہنے والے بھی۔ سبھی یکساں پریشان پائے گئے۔ کچھ ہار کر پریشان ہیں اور کچھ جیت کا سراسیمہ۔ 
سعدی کی جدید’’گلستان بوستان‘‘ سے ایک حکایت۔ 
ایک بوڑھے نے چائے خانہ پہنچ کر چائے کا کہا۔تھوڑی دیر بعد بیراچائے لے آیا۔ بوڑھا اسے دیکھ کر سٹپٹایا۔ کہنے لگا۔ تم نے مجھے رہے سہے اختیارات سے بھی محروم کر دیا۔ اس ملک میں میرے بس میں اوررہا کیا ہے؟ سوائے اس کے کہ چائے میں قہوہ، دودھ، چینی کی مقدار کا تعین اپنی مرضی سے کر سکوں۔ ورنہ ووٹ میں کسی اور کو ڈالتا ہوں، الیکشن کمیشن کسی اور کی کامیابی کا اعلان کر دیتا  ہے۔ کون سمجھتا ہے میری منشاء اور کون پوچھتا ہے مجھ سے میری مرضی۔ 
عید سے اگلے روز کالم نگار حسب معمول لیجنڈ پولیس افسر ذو الفقار احمد چیمہ کے ہاں سلام کیلئے جا پہنچا۔ وہاں گوجرانوالہ کی اہم کاروباری سماجی شخصیت ملک ظہیر الحق خوب چہک مہک رہے تھے۔ وہیں ڈاکٹر نثار احمد چیمہ سابق ممبر قومی اسمبلی کو دیکھا تو دیکھتا رہ گیا۔ ہمارے اقتدار پرست معاشرے میں ایسے سر پھرے کبھی کبھار ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ انہوں نے فارم 47کی راہ سے قومی اسمبلی جانے سے انکار کر دیا تھا۔ شائستہ اطوار، ممبر قومی اسمبلی محمد احمد چٹھہ بھی کیا قسمت لے کر آئے ہیں کہ انہیں اپنے مخالف امیدوارڈاکٹر نثار احمد چیمہ کی جانب سے مبارکباد کافون نصیب ہو گیا۔ ورنہ۔۔۔ ان دنوں ممکن ہی نہیں کہ کہیں چند لوگ جمع ہوں اور عمران خان کا ذکر نہ چھڑے۔ پہلے عمران خان کے بارے میں ایک شعر سے لطف اٹھائیں:۔ 
خوش ہو جس کو ڈال کر تم جیل میں 
آج بھی ہے وہ تو شامل کھیل میں 
ڈاکٹر نثارچیمہ کہنے لگے۔ اصل میں چاروں ایک ہیں۔ اول نواز شریف، دوم آصف زرداری، سوم مولانا فضل الرحمٰن اور چہارم عمران خان۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے بھی اسٹیبلشمنٹ سے صلح صفائی کیلئے تین شرائط ہی پیش کی ہیں۔ پہلی‘ تمام مقدمات کا خاتمہ۔ دوسری‘ پی ٹی آئی کے تمام لیڈروں اور کارکنوں کی رہائی۔تیسری‘ چرائے گئے مینڈیٹ کی واپسی۔ چوتھی کوئی شرط نہیں۔ ’’اصل میں چاروں ایک ہیں‘‘۔ کالم نگار خوب جانتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ کالم نگار کو آزادی کے پہلے روز ہی قائد اعظم کی ایک فوجی افسر کو ڈانٹ یاد آگئی اور سیاستدانوں کا سارا کیا دھرا بھی۔ پھر وہ سول بالا دستی کے بارے سوچنے لگا۔جو ابھی بہت دور کا معاملہ ہے۔

ای پیپر-دی نیشن