پیر‘ 17 ذو الحج 1445ھ ‘ 24 جون 2024ء
شکست پر بابراعظم کہیں سازش ہوئی ہے اورایک خط لہرائیں پھر کہیں غائب ہو گیاہے۔ عبدالقادر پٹیل
قومی اسمبلی میں بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے ایم این اے عبدالقادر پٹیل نے کرکٹ میں شکست پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب بابر اعظم بھی کہیں کہ ان کے خلاف سازش ہوئی ہے۔ ایک خط نکال کر لہرائیں اور بعد میں بتائیں کہ غائب ہو گیا ہے۔ اب یہ بات مزاحیہ انداز میں کہی گئی مگر کیا خوب جوڑ ی ہے۔ موجودہ حالات پر اب بابر اعظم کی مرضی ہے کہ وہ پٹیل جی کے اس مشورے پر عمل کرتے ہیں یا نہیں۔ ویسے شکست کا ملبہ اپنے پر سے اتارنے کے لیے یہ ایک بہترین نسخہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جب سیاست میں یہ چل سکتا ہے تو کھیل میں کیوں نہیں ویسے بھی کھیل میں بھی تو سیاست ہو رہی ہے تو پھر علاج ایک جیسا (یکساں) کیوں نہیں ہو سکتا۔ ویسے معلوم نہیں تھا کہ پٹیل جی بھی بڑے نقطہشناس ہیں اور حِس مزاح بھی رکھتے ہیں۔
پاپوش میں لگا دی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی
کرکٹ ٹیم کے ہارنے کے مسئلے سے جان چھڑانے کے لیے ان کی اس تجویز پر قومی اسمبلی کے ارکان قہقہے لگاتے ہوئے نظر آئے۔ بات ہی کچھ ایسی تھی۔ ایک وقت تھا سیاست میں خوش مزاجی اور ظرافت کو بھی جگہ دی جاتی تھی تاکہ گھٹن نہ ہو اور تازہ ہوا کا راستہ کھلا رہے۔ اب بھی یہی زور دیا جاتا ہے کہ دروازہ نہ سہی کم از کم کھڑکی تو کھلی رکھی جا سکتی ہے۔ مگر برا ہو اس وحشت اور جنون کا جس نے یہ راہ بھی بند کر رکھی ہے۔ سیاستدان مسکراتے بھی یوں ہیں گویا رو رہے ہیں یا انہیں زبردستی ہنسنے پر مجبور کیا۔ اب اگر چند ایک ظریفانہ خطاب کرنے والے سیاستدان باقی رہ گئے ہیں تو ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے۔ ورنہ ہنسانا تو دور کی بات یہ لوگ تو ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔
٭٭٭٭٭
وارانسی میں بھارتی وزیر اعظم پر جوتا پھینکا گیا
امید ہے اس جوتا باری سے مودی کو ہوش آ گیا ہو گا۔ ویسے بھی کہتے ہیں اگر مرگی کا دورہ پڑے تو جوتا سونگھایا جاتا ہے تاکہ مریض ہوش میں آئے۔ اب بھارتی وزیر اعظم پر مذہبی جنون میں اوتار بننے کا جو دورہ پڑا تھا۔ اس کا شافی علاج ہندوئوں کے مقدس شہر وارانسی جہاں کے شمشان ِگھاٹ مشہور ہیں ‘میں کسی شہری نے دریافت کر لیا۔ یہ چپل مودی کی گاڑی کو لگی جس میں وہ سوار تھے۔ اگر وہ کھلی گاڑی میں ہوتے تو نشانہ بن جاتے۔ ویسے یہ حیرت کی بات نہیں کہ مذہبی جنونیت پھیلانے والا یہ شخص خود رام مندر کے شہر میں الیکشن ہارا اور دوسرے مقدس شہر میں اسے جوتے پڑے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے ان کے مذہبی ڈھونگ کا پردہ چاک ہو گیا ہے اور سب اس ڈھونگی کی سیاست کو چالوں کو جان گئے ہیں مگر مودی جی بھی بڑے کائیاں ہیں اور وہ غالب سے معذرت کے ساتھ
کتنے شریں ہیں تیرے دست رقیب
’’جوتیاں‘‘ کھا کے بے مزہ نہ ہوا
مگر ان کے چاہنے والے انہیں بتا رہے ہوں گے کہ یہ بڑے فخر کی بات ہے۔ اب آپ بھی عالمی جوتا کلب کے ممبر بن گئے ہیں۔ دنیا میں کئی نامور سیاستدان اور سربراہان مملکت اس کلب میں شامل ہیں۔ یوں اس میں بھی آپ کا ہی فائدہ ہے۔ کیونکہ غالب نے ہی کہا تھا ’’بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا‘‘ سو اب وہ اس حرکت پر سیخ پا ہونے سے گریز کریں۔ ویسے بھی عوام کا کیا ہے۔ کل تک جسے ووٹ دیتے ہیں اسے آج جوتا بھی مارنے سے گریز نہیں کرتے۔ بس اسی طرح چہرے پر منافقت والی مسکراہٹ سجا کر ان کو بے وقوف بناتے رہیں۔ یہ بھی تو ایک کمال ہے۔ انہیں تو اس کی پریکٹس بھی ہو گی چائے کی دکان پر کام کرتے ہوئے جہاں کوئی گاہک خوش ہو کر واہ کرتا ہے تو کوئی ناراض ہو کر جاجا کہتا ہے۔
٭٭٭٭٭
ملک کا قرضہ اتارنے میں سیاسی قائدین پہل کریں۔ مصطفی کمال
بات تو سولہ آنے درست کی ہے مصطفی بھائی نے۔ عوام کی اکثریت بھی یہی چاہتی ہے۔ اب ان کی سوچ کو ایک زبان مل گئی ہے مگر سیاسی قائدین کے ساتھ اگر وہ ان تمام طبقات کے ارب پتی کھرب پتی نمائندوں کے بھی نام لیتے جو بادشاہوں جیسی زندگی بسر کرتے ہیں۔ آخر یہ ان کا بھی ملک ہے۔ انہیں بھی چاہیے کہ وہ بھی اس کا قرض اتارنے کے لیے آگے بڑھیں۔ قطرہ قطرہ مل کر سمندر بنتا ہے۔ یہ سب طبقے مراعات یافتہ ہیں مل جل کر ملک کے لیے قوم کے لیے یہ قربانی دیں تو قرضہ سارا نہ سہی کم از کم آدھا تو اْتار سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ناں
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
اب تک تو ہر طبقہ صرف اور صرف عوام سے ہی قربانی طلب کرتا ہے۔ انہیں ہی بکرا بنایا جاتا ہے۔ بے چارے عوام کو کون سی سہولت یا مراعات حاصل ہیں کہ وہ ہی ہر جگہ قربانی دیں انہی سے قربانیاں طلب کریں۔ اب اشرافیہ اور بااثر طبقات جو 75 سالوں سے ملک پر راج کر رہے ہیں ، وسائل پر قابض ہیں۔ رائے ونڈ محلات ہوں، بلاول ہائوس یا بنی گالہ صرف یہی نہیں تمام بڑے بڑے محلات فارم ہائوسز لاکھوں ایکڑ اراضی، شکار گاہیں ، معدنی کانوں پر قابض جاگیردار، صنعتکار، وڈیروں اور نوابوں کو بھی پہل کرنا ہو گی۔ تب جا کر ملک کا قرضہ اتارنے کی راہ ہموار ہو گی جن لوگوں کی بیرونی ملک جائیدادیں ہیں، محلات ہیں، کاروباری پلازے ہیں، وہ بھی پہل کریں ملک و قوم کے لیے آگے آئیں تو بات بنے گی۔ عوام کے پاس کیا ہے سوائے روٹی کھانے کمانے اور محنت کرنے کے وہ پہلے ہی ٹیکسوں کی شکل میں پانی خون پسینے کی کمائی کا بڑا حصہ حکومت کے خزانے میں جمع کراتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
چاہت فتح علی کی وجہ سے ہمارے گلوکاروں کی تذلیل ہو رہی ہے۔ گلوکار شفقت امانت علی
جب حِس سماعت ہی بدذوق ہو جائے تو پھر میرے بھائی مہدی حسن، امانت علی خان ہو یا احمد رشدی، مسعود رانا ہو یا نصرت فتح علی ان کی جگہ ایسے ہی بگڑے ہوئے گوئیے عروج پاتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں بھی لوگ فن موسیقی ہو یا فن رقص دونوں سے ناآشنا ہو چکے ہیں۔ جبھی تو یہ برا وقت آ گیا ہے۔ چاہت فتح علی جیسے کو بھی گلوکار کہا جانے لگا ہے۔ یہ تو بالکل ویسے ہی ہے جیسے ہمارے تھیٹروں میں ڈرامے کے نام پر بے ہودگی کو پرموٹ کیا جاتا ہے۔ واہیات ڈانس کو رقص و موسیقی کا نام دیا جاتا ہے۔ مگر کیا مجال ہے جو کسی کو برا لگتا ہو۔ لوگوں کا رش یہ سب کچھ دیکھنے تھیٹرز کا رخ کرتا ہے۔ چاہت فتح علی نے کچھ عرصہ ہوا اپنے مزاحیہ انداز اور بے سرے گانوں کی وجہ سے لوگوں کی توجہ حاصل کی اور آہستہ آہستہ عام ذہن کے لوگوں کو متاثر کرنے لگا۔ لوگ کون سے باذوق سامعین ہیں وہ تو ویسے ہی شادیوں پر بھانڈوں کی جگت بازی پر بھی تالیاں بجاتے ہیں۔ اب فن موسیقی سے وابستہ گھرانوں کی طرف سے ایسے مزاحیہ گلوکار کے خلاف آواز آنے لگی ہے کہ اس کی وجہ سے بیرون ملک ہمارے گلوکاروں کی تذلیل ہو رہی ہے لوگ ہنس رہے ہیں کہ یہ ہوتے ہیں پاکستانی گلوکار، توبہ توبہ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ چاہت کے کھاتے میں سوائے اکھ لڑی بدو بدی کے اور رکھا ہی کیا ہے۔ وہ بھی ملکہ ترنم نور جہاں کی وجہ سے یا ممتاز رقص یا اپنی خوبصورت شاعری اور موسیقی کی وجہ سے پہلے ہی بے مثال شہرت رکھتا تھا۔
٭٭٭٭٭