آپریشن عزمِ استحکام قومی سلامتی کمیٹی کا ”اِن کیمرا“اجلاس بلانے کا اعلان
آپریشن عزمِ استحکامِ پاکستان کی منظوری کے اگلے ہی روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے ہنگامہ کر کھڑا کے حکومت سے آپریشن بند کرنے کا مطالبہ کردیا۔ اپوزیشن کے مطالبے کے جواب میں حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ عزمِ استحکام آپریشن پر ایوان میں قومی سلامتی کمیٹی کا ان کیمرا اجلاس بلایا جائے گا۔ اس حوالے سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف کی تقریر کے دوران اپوزیشن نے شور شرابہ شروع کردیا جس کے بعد انھیں ہیڈفون لگاکر تقریر مکمل کرنی پڑی جبکہ اپوزیشن ارکان شور شرابہ کرتے رہے۔ انھوں نے ’فاٹا آپریشن بند کرو‘ کے نعرے لگا ئے، سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے ایوان سے واک آو¿ٹ کیا اور جمعیت علمائے اسلام کے اراکین نے بھی احتجاج اور واک آو¿ٹ میں ان کا ساتھ دیا۔ اس دوران خواجہ آصف نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کل عزمِ استحکام پاکستان اپریشن کی جو ایپکس کمیٹی نے اجازت دی تو سب کو پتا ہے کہ آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحے کے بعد ایپکس کمیٹی بنائی گئی جس میں پی ٹی آئی بھی شامل تھی۔ اس موقع پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کی رٹ قائم ہونی چاہیے، کل ایپکس کمیٹی میں آپ کے وزیراعلیٰ بھی موجود تھے تو انھوں نے کوئی اختلاف نہیں کیا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ کابینہ اور ایوان میں آئے گا، ہم قومی سلامتی کمیٹی کو ایوان میں بلائیں گے۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطاءاللہ تارڑ نے کہا، بتایا جائے کہ گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی بحث اس ملک میں کس نے شروع کی تھی؟ جب کسی کو طالبان کی گولی لگتی ہے تو اس پر گڈ یا بیڈ طالبان نہیں لکھا ہوتا، کل آپریشن عزمِ استحکام کی منظوری دی گئی، یہ معاملہ کابینہ میں بھی آئے گا اور اس ایوان میں بھی۔ ہم عزمِ استحکام پر عمل پیرا ہوں گے اور پاکستان کو عظیم تر بنائیں گے۔ اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو طالبان کو واپس لے کر آئے اور سوات میں بسایا، خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع آج نوگو ایریاز بن چکے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جب کسی پاکستانی فوجی، سپاہی، پولیس والے، رینجرز یا سویلین کے سینے پر گولی لگتی ہے تو اس گولی پر یہ نہیں لکھا ہوتا کہ یہ گڈ طالبان کی گولی ہے یا بیڈ طالبان کی۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ کدھر جانا چاہیے۔ میری ایوان سے گزارش ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہمیں متحد ہونا ہے۔
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بیرسٹر گوہر نے ایوان میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ایپکس کمیٹی پارلیمان سے بالا نہیں۔ یہ ایوان جیسا بھی ہے ایوان ہے۔جو ہواتفاق رائے کے ساتھ ہو، حکومت نے کسی بھی نقطے پر ایوان کو اعتماد میں نہیں لیا، لیکن اس مرتبہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ قیادت پہلے ان کمیرہ بریفنگ دے، پھر کوئی کارروائی ہو۔ ہم پاکستان دوست ہیں، ہمارا پوائنٹ آف آرڈر ابھی بھی ملٹری آپریشن پر ہے، اس پر ہمیں توجہ دلانی ہے۔
دوسری جانب، وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستانی شہریوں اور پاکستان میں موجود غیر ملکیوں کا تحفظ ریاست کی اولین ترجیحات میں شامل ہیے۔ امن و امان کے قیام اور شہریوں کے تحفظ میں کسی بھی قسم کی غفلت کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ وزیر اعظم کی زیر صدارت اسلام آباد میں سکیورٹی اور امن و امان کے قیام کے حوالے سے جاری منصوبوں کی پیشرفت پر اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں منشیات اور دھماکہ خیز مواد کی شناخت و نشاندہی اور ٹریسنگ کے لیے قائم شدہ کے نائین یونٹ کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ سپیشل پروٹیکشن یونٹ کی تشکیل کے لیے چینی ماہرین سے مشاورت کی جائے گی۔ اسلام آباد سیف سٹی منصوبے میں جدید تقاضوں کے مطابق فرانزک لیب تعمیر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے شہباز شریف کہا کہ اسلام آباد میں تمام سکیورٹی منصوبوں کے لیے میرٹ کی بنیاد پر افرادی قوت کی بھرتیاں اور بین الاقوامی معیار اور جدید تقاضوں کے مطابق ٹیکنالوجی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کا وجود ایک حقیقت ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ دہشت گردوں کی کارروائیوں سے صرف جانی نقصان ہی نہیں ہورہا بلکہ ان کی وجہ سے ملک کی معیشت بھی کمزور ہورہی ہے اور بیرونی سرمایہ کار ڈر کے اس ماحول میں پاکستان آنے پر آمادہ نہیں ہورہے۔ چین ان مشکل حالات میں پاکستان کی مدد کرنا چاہتا ہے لیکن اس نے بھی واضح طور پر یہ کہا ہے کہ امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا جائے۔ اطلاعات کے مطابق، چین نے اس حوالے سے صرف پاکستانی حکومت سے ہی بات نہیں کی بلکہ افغانستان میں موجود طالبان کی عبوری حکومت سے بھی کہا کہ وہ اپنے ہاں موجود تخریب کار عناصر کو لگام ڈالیں۔ یہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنجیدہ اور حساس ہے جتنا حزبِ اختلاف کے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شور شرابہ کرنے والے ارکان اسے سمجھ رہے ہیں۔
حزبِ اختلاف کے تحفظات ضرور دور کیے جانے چاہئیں اور تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ آپریشن کو کس طرح آگے بڑھایا جائے لیکن اس ضمن میں اپوزیشن کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان حالتِ جنگ میں ہے، لہٰذا اس وقت ہمیں آپس میں نہیں بلکہ دشمن سے لڑنا ہے اور کسی بھی طرح اس جنگ کو جیتنا ہے۔ ملک اب بھی دہشت گردی کا شکار ہے اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کر کے ہی دہشت گردوں سے موثر طریقے سے نمٹا جا سکتا ہے ورنہ امن دشمن عناصر کی کارروائیاں بڑھتی جائیں گی اور ان سے کسی ایک جماعت یا گروہ کو نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ ملک میں بسنے والے سبھی لوگ ان کارروائیوں سے متاثر ہوں گے۔ ملکی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ تحفظات اپنی جگہ۔ اپوزیشن کو دہشت گردی سے نمٹنے اور ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔