تعلیم اور استاد کی اہمیت (۲)
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا وہ میرا استاد ہے۔انبیاءکرام علیہم السلام کے علاوہ جتنی بھی بڑی شخصیات گزری ہیں اللہ تعالی کی صلاحیتوں کے بعد استاد ہی کی مرہون منت ہیں۔
جب علامہ اقبال کو گورنمنٹ برطانیہ نے ”سر“ کا خطاب دینا چاہا تو آپ نے کہا کہ پہلے میرے استاد کو اعزازی خطاب دیا جائے۔ گورنمنٹ نے کہا انہوں نے کوئی بھی قابل ذکر کتاب نہیں لکھی جس پر آپ نے کہا جس استاد نے مجھ جیسا مفکر پیدا کیا ہے تو تصنیف کی کیا ضرور ت رہ جاتی ہے۔تو پھر آپ کے استاد کو شمس العلماءکا خطاب دیا گیا۔
طلبہ کی تعلیم و تربیت میں معلم کی اپنی شخصیت اور اس کے ذاتی اوصاف بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ طلبہ شعوری اورلاشعوری طور پر ان سے متاثر ہوتے ہیں اور یہ تاثر طلبہ کو زندگی بھر نمایا ں طور پر نظر آتا ہے۔ ایک معلم کو خوش لباس ، حلیم الطبع ، ہمدرد پابند وقت ، وسیع القلب اور علم دوست ہونا چاہیے۔ حضور نبی کریم ﷺکی شخصیت بڑی دلکش اور موثر تھی۔ جو بھی دیکھتا آپ کی طرف کھینچا چلا آتا تھا۔ آج کے معلم کو بھی حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ سے راہنمائی لینی چاہیے تا کہ بچے اس سے دور بھاگنے کی بجائے اس کے قریب ہوں۔ استاد کو کلاس میں بیہودہ زبان اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ جو استاد خود کلاس کے اندر اور باہرغیر مہذب گفتگو کرے گا تو اس نے اپنے طلبہ کی راہنمائی کیا کرنی ہے اس لیے استاد کو زبان کی پاکیزگی کا خیال رکھنا چاہیے۔ استاد کو پابندِ وقت ہونا چاہیے۔ وقت کی پابندی زندگی میں انتہائی ضروری ہے۔ جب استاد ہی کلاس میں لیٹ پہنچے گا اور وقت کی پابندی نہیں کرے گا تو طلبہ میں بھی وقت کی پابندی کی عادت پیدا نہیں ہو گی اور وہ بھی کلاس میں ہمیشہ لیٹ ہی پہنچیں گے۔
کلاس میں بچوں سے غلطیاں سر زد ہو جاتی ہیں اس لیے ایک اچھا معلم وہ ہی ہوتا ہے جو عفو و در گزر سے کام لے۔ ڈانٹنے والے اورغضب ناک لہجے والے کبھی بھی اچھے معلم نہیں بن سکتے۔ حضور نبی کریم ﷺ دوسروں کی دلداری کا بہت زیادہ خیال رکھا کرتے تھے ہمیشہ اپنے پرائے سب سے مسکرا کر ملا کرتے تھے۔ ایک اچھے معلم کو چاہیے کہ وہ کلاس میں سب بچوں کی دلداری کرے اور کلاس میں خوش اخلاق ، ملنسار اور خوش طبع رہے۔ ایک اچھا استاد وہ ہی ہوتا ہے جو کلاس میں مکمل تیاری کے ساتھ آئے اور کتابوں کے مطالعہ کا شوق رکھتا ہو اور کلاس میں دیانتداری کے ساتھ کام کرتا ہو۔ طلبہ اس معلم سے دیانتداری اور ایمانداری کا کیا سبق حاصل کریں گے جو خود ہی دیانتدار نہ ہو۔