• news

  بدھ‘ 19 ذو الحج 1445ھ ‘ 26 جون 2024

وقار ا نبالوی کی صحافتی اورادبی خدمات۔
بابائے صحافت و ادب اور دبنگ مدیرِ سرراہے وقار انبالوی مرحوم کی 22 جون کو 128 ویں سالگرہ تھی۔ اس مناسبت سے پاکپتن کے معروف شاعر اور استاد جمشید کمبوہ صاحب نے بابا وقار انبالوی کی صحافتی اور ادبی خدمات کو اجاگر کرتے ہوئے ایک خاکہ لکھ کر ہمیں بھجوایا ہے جسے ہم وقار انبالوی مرحوم کے لیئے خراج عقیدت کے طور پر سرراہے کا ہی حصہ بنا رہے ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے!
”خلد مکانی ’ وقار انبالوی‘ ایک زودگو و پرگو شاعر بھی تھے اور صاحبِ طرز نثّر نگار بھی_ نوائے وقت میں شائع ہونے والے ’ان کے بہت سے قطعات ‘ نظر نواز ہوئے_ ہر قطعہ منفرد اور فکر افروز و خیال انگیز !
سترہ رزمیہ نظموں پر مشتمل ' ان کی کتاب آہنگِ رزم ’ معروف ماہرِ السنہ پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی کے زبردست دیباچے کے ساتھ ‘ 1937ءمیں مکتبہ اردو لاہور سے شائع ہوئی...”آہنگِ رَزم“ کو ’ اردو رزمیہ نظموں کی اوَلین کتاب ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے_ ”آہنگِ رزم“ میں شامل ایک نظم ’ بہ عنوان " زنگ آلود تلواریں “کے اس شعر کو کہ!
یہ تلواریں نہیں ' افسان خاموشِ عظمت ہیں 
یہ شمشیریں نہیں ' انگشت ہائے دستِ قدرت ہیں
 ادبی دوائر میں بے حد پذیرائی ملی- کتاب کے نام ” آہنگِ رَزم “ میں جو’ سرجوش رنگِ جلالت و جلادت ہے ‘اس کا ادراک ’ صرف مصافِ زندگی کا کوئی ترک تاز ” آہنگ آشنا “ہی کرسکتا ہے_ وقار انبالوی نے شاعری اور نثر میں اردو ادب کی جی جان سے زربہار خدمت کی_
بے شک !وقار انبالوی ' اردو ادب کا وقار ہیں !
ان کے فکر و فن کا فانوس ' شبستانِ ادبِ اردو کو ہمیشہ جگمگاتا رہے گا"۔
دنیا میں کہیں بھی نان فائلر نہیں، صرف پاکستان میں ہیں۔ سلیم مانڈوی والا۔ 
جس ملک میں قدم قدم پر کرپشن مافیا گھات لگا کر بیٹھا ہو۔ لوگوں کو ٹیکس چوری کی ترغیب خود محکمہ انکم ٹیکس کے ملازمین دیتے ہوں وہاں کیا خاک فائلرز کی تعداد بڑھے گی۔ ایسے ملک میں نان فائلرز کو عقل مند اور فائلرز کو بے وقوف کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی نان فائلر نہیں پائے جاتے اور ہمارے ہاں اس کے برعکس نان فائلرز کا دور دورہ ہے۔ حکومت جتنی کوشش کرے لوگ ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں ہوتے صرف سرکاری ملازمین یا تنخواہ دار لوگ ہی حکومت کے شکنجے میں آتے ہیں اور انہیں ہی ہر حکومت کند چھری سے ذبح کر کے ثواب کماتی ہے۔ ویسے دنیا بھر میں یہ بھی تو ہوتا ہے کہ ٹیکس ادا کرنے والوں کو مراعات ملتی ہیں۔ تعلیم، صحت اور دیگر معاملات میں رعایتیں ملتی ہیں۔ ہمارے ہاں ایسی کوئی رعایت کسی کو حاصل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں ہمیں حکومت نے کونسی سہولت دی ہے کہ ہم ٹیکس ادا کریں۔ اسی لیے وہ رشوت دے کر محکمہ انکم ٹیکس کے کرپٹ اہلکاروں کی ملی بھگت سے اپنی آمدنی چھپاتے ہیں اور غلط اعداد و شمار دے کر جان چھڑاتے ہیں۔ حکومت محکمہ انکم ٹیکس سے بھی کالی بھیڑوں کا خاتمہ کرے۔ ایمانداری سے ٹیکس دینے والوں کو رعایتیں اور مراعات دیں۔ لوگ خودبخود ٹیکس ادا کرنے میں خوشی محسوس کریں گے۔ دنیا بھر میں لوگ ٹیکس بوجھ نہیں ذمہ داری سمجھ کر ادا کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس کے بدلے حکومت بہت کچھ انہیں بھی دیتی ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ 
حکومت کچے کے علاقے میں بھی عزم استحکام کی طرح آپریشن کرے۔
مختلف سماجی اور سیاسی حلقوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جس طرح دہشت گردوں کے خلاف وہ سخت ایکشن لے رہی ہے۔ اگر ایسا ہی سخت ایکشن کچے میں لیا جائے تو وہاں پرورش پانے والے ان موذی زہریلے سانپوں یعنی ڈاکوﺅں کو تہہ تیغ کر دے تو سندھ اور پنجاب کے لوگوں کو ان کے ظلم و ستم سے نجات مل جائے گی۔ یہ ڈاکو اب درد سر بن چکے ہیں ان کا علاج بہت ضروری ہے۔ ان کی طاقت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دو صوبوں کی پولیس اور رینجرز کی بھرپور نفری بھی ابھی تک ان کو کچلنے میں ناکام ہے۔ اگر وہاں بھی فوجی آپریشن کیا جائے تو اس کے مثبت نتائج مل سکتے ہیں کیونکہ بااثر افراد حکمران طبقات اور سیاستدانوں کی پشت پناہی کی وجہ سے پولیس ان کے خلاف موثر ثابت نہیں ہو رہی۔ کیونکہ خود پولیس میں بھی ان کے مخبر موجود ہیں جن میں سے کئی کا سراغ بھی مل چکا ہے ان کے خلاف کارروائی بھی ہوئی مگر ابھی سینکڑوں ڈاکو کچے کے علاقے میں اپنے محفوظ ٹھکانوں میں موجود ہیں۔ جدید بھاری اور خطرناک اسلحہ ان کے پاس ہے۔ وہ کھلم کھلا حکومت کو چیلنج لگتے ہیں۔ حکومت ان کے سامنے بھی ویسے ہی بے بس ہے جس طرح دہشت گردوں کے سامنے۔ اس لیے اب ایک بے رحم آپریشن کچے کے عاقے میں بھی ضرور کیا جائے۔ لوگ اس کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں۔ چنانچہ جہاں جہاں ایسے ناسور پائے جاتے ہیں ان کو کاٹ ڈالنے کا اب وقت آ گیا ہے۔ اسے ضائع نہ کیا جائے۔ جو کرنا ہے اب کیا جائے۔ 
ریکوری اہداف کا حصول ؛ لیسکو نے اقساط پر پابندی لگا دی۔
 لگتا ہے حکومت نے قسم کھا لی ہے کہ وہ عوام کو آرام سے مرنے بھی نہیں دے گی۔ آہستہ آہستہ ایک ایک بوٹی کاٹ کر انہیں سسک سسک کر مار کر ان کی بے بسی کا تماشہ دیکھتی رہے گی۔ ایک تو روزانہ نہ سہی ہر ماہ نہایت ڈھٹائی سے بجلی کے ریٹ بڑھا رہی ہے۔ کبھی کسی مد میں کبھی کسی حساب سے۔ عام صارف کے لیے اب بجلی بل جمع کرانا ناممکن ہو گیا ہے۔ ایک بلب ایک پنکھے کا بل 6 یا 7 ہزار روپے سے کم نہیں آ رہا۔ غریب تو گھر کا سامان فروخت کر کے بل جمع کرا رہے ہیں۔ اچھے خاصے سفید پوش لوگ بھی بل یکمشت جمع کرانے کی سکت نہیں رکھتے ان کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی بس یہی ایک آسرا تھا کہ وہ قسط کرا کے بل ادا کر دیتے تھے۔ اب حکومت نے ان سے یہ معمولی رعایت بھی چھین لی ہے۔ بھلا بل وصولی کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے یہ صارفین ہی کو کیوں بکرا بنایا جا رہا ہے۔ بڑے لوگ تو لیسکو عملے کی ملی بھگت سے اپنے بھاری بل کم کرا لیتے ہیں مگر عام صارف کیلئے ایسا کرناممکن نہیں ہے۔ وہ پہلے ہی بھاری بلوں اور لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں ادھ موئے ہو چکے ہیں۔ اب اگر بل جمع نہیں کرائیں گے تو لیسکو والے ان کی بجلی کاٹ دیں گے۔ مگر یادرہے کہ پھر بل کون جمع کرائے گا۔ ریکوری کا ہدف کیسے حاصل ہو گا۔ یاد رہے زیادہ سختی سے نفرت جنم لیتی ہے جو بغاوت بن جاتی ہے۔ اس سے پہلے کہ ہمارے ہاں بھی آزاد کشمیر کی طرح بھاری بجلی بلوں کے خلاف کوئی تحریک چلے۔حکومت عوام کو ا ن بھاری بلوں سے نجات کی راہ تلاش کرے۔۔۔

ای پیپر-دی نیشن