آپریشن عزم استحکام کے تحت سرحد پار دہشت گردوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں: وزیر دفاع
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ملکی سلامتی سے بڑی کوئی چیز نہیں۔ آپریشن عزم استحکام کے تحت سرحد پار موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ جلد بازی میں نہیں ہوا۔ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے آگے حکومتی فیصلوں کو سپیس نہیں دینا چاہتیں۔ وزیر دفاع نے کہا کہ آپریشن کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے جو بھی تحفظات ہیں انہیں دور کیا جائے گا اور حکومت اس معاملے کو اسمبلی میں بھی لے کر آئے گی تاکہ اراکین کے سوالات اور تحفظات کا جواب دے کر انہیں اعتماد میں لیا جاسکے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں بھی اس پر بات ہو سکتی ہے۔ خواجہ آصف نے کالعدم ٹی ٹی پی سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی گراؤنڈ موجود ہی نہیں جس کی بنیاد پر بات چیت کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے آپریشن کامیاب ہوئے اور کسی ناکامی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ آپریشن کے بعد سویلین حکومتوں کو جس طرح سے کردار ادا کرنا چاہیے تھا اس میں تمام حکومتیں ناکام رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک میرا مشاہدہ ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے اب تک کسی بھی سٹیج پر آپریشن عزم استحکام کی مخالفت نہیں کی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنانا عالمی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کیونکہ وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی ایکسپورٹ ہورہی ہے۔ ایک فریق بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ ہمسائیگی کا حق بھی ادا نہیں کر رہا۔ آپریشن میں امریکہ کی مدد نہیں لیں گے۔ ہم خود کریں گے۔ وزیراعظم نے براہ راست بانی پی ٹی آئی کو مخاطب کرکے مذاکرات کی غیر مشروط پیشکش کی ہے۔ جب تک دہشتگردی ختم نہیں ہو گی ہماری معاشی صورتحال بہتر نہیں ہو گی۔ دہشتگردی ختم نہیں ہو گی تو غیر ملکی سرمایہ کاری کیسے آئے گی۔ پاکستان کی سکیورٹی صورتحال پر چین کے تحفظات ہیں۔ پاکستان سکیورٹی صورتحال بہتر بنا لے تو ہم چین کی پہلی ترجیح ہیں۔ بغیر پاسپورٹ اور ویزے پاکستان میں داخلے کی روایت اب ختم ہونے جا رہی ہے۔ وہاں سے آنے والی تمام ٹریفک کو پاسپورٹ اور ویزے کے بعد ہی داخلے کی اجازت ہو گی۔ اب پاکستان ان بارڈرز کو انٹرنیشنل بارڈر بنائے گا۔ پاکستان نے اپنے آپ کو محفوظ کرنا ہے۔ یہ کراسنگ پوائنٹس پاکستان کو غیر محفوظ کر رہے ہیں۔ ہماری بار بار درخواست پر افغان حکومت کو جس طرح کا تعاون کرنا چاہئے وہ نہیں کر رہی۔ جس طرح چین کے ایران، بھارت کے ساتھ بارڈرز ہیں افغانستان کے ساتھ بھی ایسا ہونا چاہئے۔ فیملیز دونوں اطراف رہ رہی ہیں، اس چیز کا ہمیں ادراک ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد کشمیر میں آج بھی فیملیز تقسیم ہیں۔