حرص و لالچ اور کنجوسی
حرص و لالچ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ ہر انسان حرص و لالچ میں مبتلا ہے جس کی وجہ سے وہ بے شمار مصائب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔یہ ایک ایسی بیماری ہے کہ جب انسان اس میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کے دل میں مزید کی تمنا بڑھتی چلی جاتی ہے۔ حضورنبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : انسان کے پاس اگر دو بڑے میدان سونے کے انباروں سے بھر جائیں پھر بھی اس میں تیسرے کی تمنا رہے گی جب تک کہ وہ منوں مٹی کے نیچے نہیں پہنچ جاتا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن اس کی دو چیزیں ہمیشہ جوان رہتی ہیں ایک مال کی حرص اور دوسری عمر کی حرص ( بخاری )
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مرتبے کے لحاظ سے قیامت کے روز سب انسانوں سے بد تر وہ ہو گا جس نے دوسرے کی دنیا کی خاطر اپنی آخرت خراب کر لی۔ (ابن ماجہ )
اگر انسان یہ بات ذہن نشین کر لے کہ جو چیز ہماری قسمت میں لکھی جا چکی ہے وہ عمر ہو یا دولت وہ مل کر ہی رہنی ہے وہ بدل نہیں سکتی تو انسان حرص و لالچ سے بچ جائے گا۔ حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : آدمی کی نجات تین چیزوں میں ہے اول یہ کہ ظاہر اور باطن میں اللہ تعالی سے ڈرتا رہے دوسرا یہ کہ امیر ہو یا فقیر خرچ میں میانہ روی اختیار کرے اور تیسرا یہ کہ غم ہو یا خوشی ہر حال میں انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔
مزید ارشاد فرمایا : جو شخص میانہ روی اختیار کرتا ہے اللہ تعالی اسے دنیا سے بے نیاز کر دیتا ہے اور جو شخص فضول خرچی کرتا ہے اللہ اسے ددسروں کا محتاج بنا دیتا ہے اور فرمایا خرچ کرتے وقت تدبیر اور آہستگی سے کام لو یہ قدم آدھی روزی سے تعلق رکھتا ہے۔
حرص و لالچ اور مال جمع کرنے کی عادت ہی انسان کو کنجوس بنا دیتی ہے اور وہ ہر معاملے میں بخل اور کنجوسی سے کام لیتا ہے۔ کنجوسی بہت ب±ری عادت ہے اس عادت میں مبتلا انسان دوسروں کا حق مارتا ہے اور اس میں انتہائی تنگ نظری پیدا ہونے لگتی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : سخی اللہ کے قریب ہے، جنت سے قریب ہے،انسانوں سے قریب ہے ، جہنم سے دور ہے اور فرمایا بخیل اللہ تعالی سے دور ہے ، جنت سے دور ہے ، انسانوں سے دور ہے ، جہنم سے قریب ہے اور جاہل سخی عبادت گزار بخیل سے زیادہ اللہ تعالی کو پیارا ہے ( مشکوة شریف)۔