ٹیریان بانی پی ٹی آئی کی قانونی بیٹی نہ ان کے زیرکفالت ثابت ہوئی‘ تفصیلی فیصلہ
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹیریان وائٹ کیس ناقابل سماعت قرار دینے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ فیصلے کے مطابق درخواست گزار ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ ٹیریان جیڈ وائٹ بانی پی ٹی آئی کی حقیقی اولاد ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی کا نوٹ بھی تفصیلی فیصلے کا حصہ ہے۔ 54 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں لارجر بینچ نے درخواست پر 30 مارچ 2023 کو سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس محسن اختر کیانی بھی شامل تھے۔ وکلا کی جانب سے دلائل کے بعد درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کیا گیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے درخواست پر اپنا فیصلہ تحریر کیا جس سے جسٹس ارباب محمد طاہر نے بھی اتفاق کیا۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ لارجر بینچ کے دو اراکین کے فیصلے کے مطابق درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیا گیا تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کا تین رکنی لارجر بنچ کیس کا فیصلہ کر چکا۔ جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب محمد طاہر نے درخواست کو ناقابلِ سماعت قرار دیا۔ درخواست پر فیصلہ ہو جانے کے بعد اسی فورم پر دوبارہ نہیں چلایا جا سکتا۔ عدالت نے درخواست بانی پی ٹی آئی کی ذاتی زندگی میں مداخلت قرار دے دی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ ٹیریان جیڈ وائٹ بانی پی ٹی آئی کی حقیقی اولاد ہے، بانی پی ٹی آئی کے لیے اپنے بچوں یا زیر کفالت بچوں کو ظاہر کرنا ضروری تھا، جبکہ ٹیریان جیڈ وائٹ نہ تو بانی پی ٹی آئی کی قانونی بیٹی ثابت ہوئی نہ ہی ان کے زیر کفالت ثابت ہوئی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس عامر فاروق نے نوٹ لکھا جس میں انہوں نے ایک صحافی کے ٹویٹ کا ذکر کیا، چیف جسٹس عامر فاروق نے صحافی کے ٹویٹ پر کیس سننے سے معذرت کرلی، انہوں نے اپنے فیصلے میں درخواست کو قابل سماعت قرار دیا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے بینچ توڑتے ہوئے درخواست پر نیا بینچ تشکیل دینے کی ہدایت جاری کردی، چیف جسٹس کے اس اقدام نے بینچ کے اکثریتی فیصلے کو کالعدم کردیا۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ امریکی عدالت کا 1997 کا مقدمہ پاکستانی عدالت میں قانونی طور پر ثابت کرنا ضروری ہے، تاکہ پاکستانی قوانین کے مطابق فیصلے کی تصدیق ہوسکے۔ تحریری فیصلے کے مطابق درخواست گزار کسی بھی قسم کا غیر متنازعہ امر ثابت نہ کرسکا، پٹیشنر نے امریکا کی لاس اینجلس عدالت سے 13 اگست 1997 کو یکطرفہ ڈگری ہونے والے مقدمہ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ ٹیریان ہی قانونی حق وراثت کیلئے غیر ملکی عدالتی ڈگری قابل عمل بنانے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔