آپریشن عزم استحکام ضروری کیوں ؟
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے شب و روز ایک کر کے بر صغیر کے منتشر اور منقسم مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور انہیں ایک قوم بنا دیا جس کو ایک ملک کی ضرورت تھی-14 اگست 1947 کو جب پاکستان آزاد ہو گیا تو اس کے چند سال کے بعد مسلمان ایک بار پھر منتشر اور منقسم ہو گئے اور آج پاکستان میں قوم نظر نہیں آتی بلکہ عوام کا ایک ہجوم ہے جو مختلف جماعتوں فرقوں قبیلوں زبانوں اور علاقوں میں تقسیم ہو چکا ہے- پاکستان کے عوام میں قومی یکجہتی نظر نہیں آتی-دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں مفاد عامہ کا کوئی بھی کام شروع کرنا ہو تو وہاں پر عوام کو اعتماد میں لیا جاتا ہے اور ان سے مشاورت کی جاتی ہے- افسوس 76 سال گزرنے کے باوجود پاکستان میں قومی سوچ پر مبنی کلچر پیدا نہیں کیا جا سکا- نفسانفسی سال بہ سال بڑھتی چلی جارہی ہے - وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے چین کا دورہ کیا تو وہاں پر ان کو پاکستان میں سکیورٹی کے حوالے سے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا- چین کے سینیر وزیر لیو جیان چاؤ نے پاکستان کا دورہ کیا جس کے دوران ایک مشاورتی اجلاس ہوا جس میں حکومتی جماعت کے علاوہ تحریک انصاف کے بیرسٹر علی ظفر اور جمعیت العلماء اسلام کے لیڈر مولانا فضل الرحمن نے بھی شرکت کی-چینی وزیر نے پاکستان میں سیکیورٹی اور عدم استحکام کے بارے میں اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا-وزیراعظم شہباز شریف نے وفاق کی حرکیات اور حساسیت کو نظر انداز کرکے "پنجاب سپیڈ "کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان پر مرکزی ایپکس کمیٹی کا اجلاس بلا کر اپریشن عزم استحکام کا اعلان کردیا - وفاقی کابینہ نے اس آپریشن کی منظوری بھی دے دی- خیبر پختون خواہ کی تمام سیاسی جماعتوں نے اس آپریشن کی مخالفت کر دی اور ایک جرگہ کر کے اس آپریشن کے خلاف قرارداد بھی منظور کروا لی فاٹا کے عوام ماضی کے آپریشن کی تلخ اور اذیت ناک یادوں کو بھول نہیں پائے-پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان کے سیاست دان اور با اثر ریاستی ادارے قومی سلامتی اور قومی مفاد کے بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے اور جلد بازی میں فیصلے کرتے رہتے ہیں- وزیراعظم سیکرٹیریٹ سے ایک وضاحت جاری کی گئی کہ یہ مجوزہ آپریشن سابقہ آ پریشن کی طرح نہیں ہوگا اور نقل مکانی نہیں کی جائے گی بلکہ یہ ایک ٹارگٹ آپریشن ہوگا جو خفیہ ایجنسیوں کی اطلاعات پر کیا جائے گا - اعتماد کے بحران کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں نے اس وضاحت کو قبول نہ کیا-حقیقت یہ ہے کہ جب سے افغان طالبان نے افغانستان میں اقتدار سنبھالا ہے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے-ایک رپورٹ کے مطابق 2023ء میں سکیورٹی فورسز کے 500 سے زیادہ اہلکار شہید ہوئے- 2024ء کے پہلے چھ ماہ میں 250 اہل کار شہید ہو چکے ہیں-غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والے پاک فوج کے نوجوان وطن کے دفاع کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں-اس سلسلے میں اجتماعی طور پر بڑی بے حسی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے-سکیورٹی خدشات کی وجہ سے پاکستان کے سرمایہ کار اپنا سرمایہ پاکستان سے باہر لے کر جا رہے ہیں ان حالات میں بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے کیسے آمادہ ہو سکتے ہیں-
ایک مستند رپورٹ کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان مذہبی جماعتوں سے رابطے کر کے ان پر زور دے رہی ہے کہ پاکستان میں جمہوری نظام کے ذریعے اسلامی نظام نافذ نہیں کیا جا سکتا لہذا ان کو طالبان کا ساتھ دیتے ہوئے جہاد میں شریک ہو جانا چاہیے- پاکستان کی بڑی جماعت کے لیڈر جیل میں بند ہیں جس کی وجہ سے پاکستان بھر میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں میں نفرت اور غصہ تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے جو امن اور استحکام کے لیے انتہائی تشویش ناک ہو سکتا ہے-ان حالات میں لازم ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے متحد اور منظم ہو جائیں-اپریشن عزم استحکام کا فیصلہ پارلیمانی اتفاق رائے سے کیا جائے تاکہ پوری قوم اس آپریشن کے ساتھ کھڑی ہو-کوئی بھی آپریشن اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اس پر عوام کو اعتماد نہ ہو اور ان کے ذہنوں میں شکوک و شبہات موجود ہوں-مسلم لیگ نون کے لیڈر میاں نواز شریف جو تین بار وزیراعظم رہ چکے ہیں ان کا رویہ قومی امور کے بارے میں بے حسی پر مبنی نظر آتا ہے- ان کی جماعت وفاق اور پنجاب میں اقتدار میں ہے- ان کا فرض ہے کہ وہ قومی اور عوامی مسائل میں دلچسپی لیں اور اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں اور پاکستان کو سیاسی و معاشی بحران سے نکالنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں - عمران خان کے دور اقتدار میں 35 ہزار طالبان اور ان کے خاندانوں کو افغانستان سے پاکستان آنے کی اجازت دینا پاکستانیوں کے لیے بہت مہنگا ثابت ہؤا ہیاور خاص طور پر اس افسوسناک فیصلے کی قیمت پاک فوج کے جوان اور پولیس کے اہلکار ادا کر رہے ہیں - اس بدقسمت فیصلے کی ذمہ داری سابق وزیراعظم عمران خان سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس ائی جنرل فیض حمید پر عائد ہوتی ہے-سوات کے عوام نے اس فیصلے کے خلاف مظاہرے بھی کیے تھے-
پاکستان کے دوست ممالک خلوص نیت سے چاہتے ہیں کہ پاکستان کو معاشی دیوالیہ پن سے نکالا جائے اور پاکستان کے اندر مختلف منصوبوں پر سرمایہ کاری کی جائے مگر یہ سرمایہ کاری اس وقت تک نہیں کی جا سکتی جب تک پاکستان کے اندر سکیورٹی کے حالات سازگار نہ ہو جائیں - سکیورٹی کے حالات اس وقت تک سازگار نہیں ہو سکتے جب تک پاکستان میں قومی اتفاق رائے پیدا نہ کیا جائے-پاکستان کے 25 کروڑ عوام پاکستان کی سیاسی مذہبی جماعتوں اور ریاستی اداروں سے التجا کرتے ہیں کہ وہ اپنی اپنی اناؤں اور مصلحتوں سے اوپر اٹھ کر قومی اتفاق رائے پیدا کریں تاکہ پاکستان اپنی تاریخ کے سنگین سیاسی معاشی بحران سے باہر نکل سکے-اپریشن عزم استحکام ملکی سلامتی اور خوشحالی کے لیے لازم ہے دہشت گردی کے خاتمے کے بغیر معاشی بحالی ممکن نہیں ہو سکتی - اپریشن عزم استحکام قومی اتفاق رائے کے بعد ہی کیا جانا چاہیے ورنہ اس کے نتائج انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں-