اتوار‘23 ذو الحج 1445ھ ‘ 30 جون 2024ء
فیصل واؤڈا کا سپریم کورٹ کی دہلیز پر فیصلے کے بعد سجدہ شکر۔
بڑوں نے یونہی تو نہیں کہا تھا کہ ’’پہلے تولو پھر بولو‘‘ بہت سی باتیں زیرلب رہیں تو بہتر ہوتا ہے۔ ورنہ تماشہ بن جاتا ہے۔ خاص طور پر جب کوئی اہم ادارہ مقابل ہو تو قانونی چارہ جوئی کی وجہ سے احتیاط ضروری ہوتی ہے۔ اب پچھلے دنوں مصطفی کمال اور فیصل واؤڈا نے عدلیہ کے حوالے سے کچھ سخت باتیں کہہ دیں۔ اس پر انہیں شوکاز نوٹس جاری ہوئے۔ مصطفی کمال نے تو فوری طور پر معذرت کر لی، معافی مانگ لی۔ مگر فیصل واوڈا نے عدالت کے سامنے پیش ہونے کا فیصلہ کیا۔ مگر پچھلے چند روز سے لگتا ہے عدالت کا رویہ دیکھتے ہوئے انہیں عدالت سے معافی ہی طلب کرنا پڑی جس پر عدالت نے انہیں معاف کر دیا۔ اسی طرح مصطفی کمال کی بھی جان خلاصی ہو گئی۔ عدالت کی طرف سے معافی ملنے کے بعد فیصل واؤڈا نے باہر نکلتے ہی فٹ پاتھ پر ہی عدالت کی طرف رْخ کر کے سجدہ شکر ادا کیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھی پریشان تھے کہ کہیں ان کے ساتھ ایسا ویسا نہ ہو جائے۔ بے شک وہ ایک دبنگ سیاستدان ہیں اور نڈر بھی ہیں مگر آئین نے جن اداروں کوتحفظ دیا ہے ان سے سینگ لڑانا دانشمندی نہیں۔ بولنا ان کا حق ہے وہ ضرور بولیں لوگ ان کو سنتے ہیں آہنگ بے شک بلند لہجہ کرخت ہو مگر الفاظ کا چنائو کرتے ہوئے محتاط رہنا ہی عقل مندی ہے۔ ورنہ بعد میں پچھتاوا ہوتا ہے اور فٹ پاتھ پر سجدہ شکر بجا لانا پڑتا ہے۔
٭٭٭٭٭
امریکی صدر جوبائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان صدارتی مباحثے میں ٹرمپ کا پلہ بھاری۔
امریکی صدارتی الیکشن کی تاریخ میں صدر اور اس کے مخالف حریف کے درمیان یہ صدارتی مباحثہ دراصل ووٹروں کے لیے ہمیشہ متاثر کن رہا ہے اور اسی سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ آنے والے الیکشن میں کون کامیاب ہو سکتا ہے۔ یہ مباحثہ امریکی رائے عامہ کو متاثر کرتا ہے۔ سو اس مرتبہ بھی دونوں امریکی صدارتی امیدوار جنہیں ہم بابے بھی کہہ سکتے ہیں آمنے سامنے آئے تو یہ ہماری زبان ’’بہترے تہترے‘‘ کی شاندار مثال بن گئے۔ پرانی مائیوں کی طرح ایک دوسرے پر انہوں نے جو الزامات لگائے وہ سْن کر تو یوں لگ رہا تھا گویا محلے دار آپس میں لڑ رہے ہیں۔ دونوں بزرگ سیاستدان بچوں کی طرح ایک دوسرے کیخلاف بول رہے تھے۔ ایک کہہ رہا تھا تم نے امریکہ کو تباہ کر دیا دوسرا کہہ رہا تھا تمہاری وجہ سے امریکہ تباہ ہو رہا ہے۔ ایک کہتا ہے میں نے کیا کیا کیا دوسرا کہتا ہے میں نے یہ یہ کیا۔ الغرض صرف طعنے دے دے کر دونوں بابوں نے اپنے اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔ یوں لاکھوں امریکی جو یہ مباحثہ دیکھ رہے تھے، حظ اٹھاتے رہے۔ امریکی ماہرین سیاسیات کے مطابق یہ خاصہ حیران کن مباحثہ تھا جس میں کارکردگی سے زیادہ شکوے شکایات اور الزامات پر زور دیا گیا۔ اس پہلے مباحثے میں ٹرمپ کا پلہ بھاری رہا۔ جوبائیڈن کی مایوس کن کارکردگی کے بعد اب پتہ چلا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے بڑے اپنے امیدوار جوبائیڈن کو تبدیل کرنے پر غور کر رہے ہیں ان کی جگہ کسی اور کو صدارتی امیدوار نامزد کیا جا سکتا ہے۔ یوں شاید ٹرمپ کے لیے آسانی رہے گی کہ وہ اپنی کارکردگی اور شخصیت کے حوالے سے امریکی ووٹروں کو زیادہ متاثر کر پائیں گے۔ میڈیا کے مطابق اس مباحثے میں ٹرمپ نے 30 اور جوبائیڈن نے 9 جگہ غلط بیانی کی۔ اور تو اور دونوں بابوں نے ایک دوسرے کی عمر اور بڑھاپے پر بھی جملے کسے۔
٭٭٭٭٭
مالدیب کے صدر پر کالا جادو کرنے کے الزام میں وزیر سمیت دو افراد گرفتار۔
یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ مالدیب کے دو وزیروں کواپنے ہی صدر پر کالا جادو کرانے کے الزام میں گرفتار کیا گیاہے۔ کس سے کراتے تھے یا کیوں کراتے تھے یہ بھی جلد ہی پتہ چل جائے گا۔ خدا جانے ایشیائی رہنمائوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ جادو ٹونوں پر اعتماد کرے لگے ہیں۔ بھارت کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ وہاں یہ جادو ٹونہ جنتر منتر عام ہے۔ وہاں کے حکمران جوتشیوں کی رائے لے کر ہی کوئی کام کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کی تو ساری سیاست ہی جادو ٹونے کے گرد گھومتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی سابق وزیر اعظم جو ایک پڑھے لکھے کھلاڑی بھی تھے کے بارے میں یہی پتہ چلا ہے کہ ان کی اہلیہ عملیات پر یقین رکھتی ہیں اور انہوں نے اپنے شوہر کو بھی اس طرف راغب کیا ہے۔ اب مالدیب کے صدر کے حوالے سے یہ انکشاف حیران کن ہے۔ وہاں ان کے اپنے وزرا نے ان کو قابو کرنے کے لیے ایسا کیا ہے یا ان کے دور اقتدار کو مختصرکرنے کیلئے ایسا کر رہے ہیں۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو ایسی باتوں سے حیرانی ہوتی ہے کہ آج کے اس جدید دور میں بھی ایسے فرسودہ خیالات، وہ بھی پڑھے لکھے لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ تو ناخواندہ توہم پرست مرد و خواتین کا خاصا ہوتا ہے۔ وہ اس قسم کی باتوں پر یقین رکھتے ہیں یوں دو نمبر جعلی فراڈی بابوں کی دکان چلتی ہے اور گھروں میں اختلافات اور فسادات کی فضا گرم رہتی ہے۔ اب ان خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ آج بھی دنیا میں کسی نہ کسی طرح یہ خبیث کاروبار چل ہی رہا ہے۔ اور پڑھے لکھے لوگ بھی اس کا شکار ہیں۔
٭٭٭٭٭
بولیویا کے صدر نے اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے بغاوت کرائی گرفتار فوجی جنرل کا بیان۔
اس کرسی کی خاطر کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ آج تک مخالفین پر حملے کرانے یا اپنے اوپر جھوٹا قاتلانہ حملہ کرانے کے واقعات تو تاریخ میں درج ہیں مگر یہ پہلی دفعہ دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے کہ کسی ملک کے حکمران نے خود اپنی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کا کھیل کھیلا تاکہ ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو۔ چند روز قبل بولیویا میں فوج کے ایک گروپ نے صدر کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اہم سرکاری عمارتوں کا گھیرائو کر لیا جس پر وہاں کے لوگ باہر نکل آئے اور انہوں نے یہ بغاوت کی کوشش ناکام بنا دی۔ اب بغاوت کرنے والوں کے سرغنہ جنرل نے انکشاف کیا ہے کہ یہ بغاوت خود صدر نے اپنے خلاف کروائی تاکہ ان کی عوام میں مقبولیت میں اضافہ ہو۔ دیکھ لیں اب یہ بھی ہونے لگا ہے دنیا میں۔ اس بغاوت کے مناظر اور واقعات پر ہماری ایک سیاسی جماعت نے سوشل میڈیا پر خوب کھیل کھیلا اور عوام کو پیغام دیا کہ لوگ چاہیں تو فوجی بغاوت کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ ساتھ ہی سری لنکا کے مناظر بھی دکھائے جب وہاں عوام باہر نکلے تھے۔ اب اصل بات معلوم ہونے کے بعد ان کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی ہو گی۔ باقی رہی بات ہمارے ملک کی تو یہاں ماورائے اقدام کے آگے کوئی رکاوٹ ہی نہیں۔ بلکہ عوام اور سیاستدانوں کا ایک گروہ ایسے اقدام کا خیرمقدم کرنے کے لیئے ہمہ وقت آمادہ و تیار رہتا ہے۔ اب یہ سلسلہ کافی عرصہ سے ختم ہو چکا ہے۔ جمہوریت کا دور دورہ ہے جو خود ہمارے سیاستدانوں کو ہضم نہیں ہو رہا اور وہ پوری طرح کوشش کر رہے ہیں کہ افراتفری پھیلے اور سسٹم کا بوریا بستر گول کر دیا جائے۔ مگر ابھی تک عوام کا موڈ نہیں بن رہا کہ وہ اس گرمی میں باہر نکل کر اپنا خون پسینہ جلائیں۔