وفاقی اورصوبائی میزانیوں کی منظوری عوام کی اقتصادی مشکلات مزید بڑھنے کا امکان
قومی اسمبلی نے مالی سال 2024ء 2025ء کیلئے 18 ہزار 887 ارب روپے کا وفاقی بجٹ اور فنانس بل گزشتہ روز کثرت رائے سے ترامیم کے ساتھ منظور کرلیا۔ قبل ازیں پنجاب‘ سندھ‘ کے پی کے اور بلوچستان کے میزانیے بھی متعلقہ صوبائی اسمبلیوں میں منظور ہو چکے ہیں چنانچہ کل یکم جولائی سے نئے مالی سال کا باضابطہ طور پر آغاز ہو جائیگا۔ قومی اور صوبائی میزانیوں کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پیش اور منظور ہونے تک اپوزیشن کی پارلیمانی پارٹیوں نے اجلاس کے بائیکاٹ کے بجائے منتخب ایوانوں کے اندر احتجاج اور مخالفت کی پالیسی اختیار کی اور میزانیوں میں ردوبدل کیلئے مجوزہ ترامیم اور کٹوتی کی تحریکیں پیش کی گئیں جو اگرچہ منتخب ایوانوں میں منظور نہ ہو سکیں تاہم اپوزیشن کی جانب سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے بجٹ اجلاسوں میں بھرپور شرکت کا فیصلہ جمہوریت کی عملداری و استحکام کیلئے مثبت اقدام کے طور پر لیا جائیگا۔
چونکہ وفاقی بجٹ میں مہنگائی میں کمی اور عوام کو ریلیف دینے کیلئے سینیٹ کی پیش کردہ 128 میں سے کسی ایک قرارداد کو بھی پذیرائی نہیں دی گئی ماسوائے پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی شرح میں کئے گئے 20 روپے کے اضافہ میں سے دس روپے کم کرنے کے‘ اور کسی قسم کا ردوبدل منظور شدہ قومی بجٹ میں نظر نہیں آیا اور وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے سینیٹ کی سفارشات کا محض جائزہ لینے کا بیان دیا ہے اس لئے اب بجٹ کے نتیجہ میں مہنگائی کے اٹھنے والے نئے سونامیوں پر ممکنہ سخت عوامی ردعمل بھی حکمران جماعتوں مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی‘ مسلم لیگ (ق)‘ استحکام پاکستان پارٹی کو مشترکہ طور پر بھگتنا پڑیگا اور عوام حکمران جماعتوں کی قیادتوں کا کوئی جواز اور عذر قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہونگے چنانچہ بجٹ کے نافذالعمل ہونے کے ساتھ ہی عوام کے مہنگائی اور روٹی روزگار کے گھمبیر مسائل پر ابلتے ہوئے جذبات لاوا پھٹنے کی نوبت لا سکتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ عوامی احتجاج کے آثار پیدا ہوتے دیکھ کر بھی منتخب نمائندوں نے اپنی سہولتوں اور مراعات کی قربانی دینے کے بجائے ان مراعات میں مزید اضافہ کرالیا جس کیلئے پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل کی جانب سے قرارداد پیش کی گئی تھی جو ایوان نے اکثریت رائے کے ساتھ منظور کرلی۔ یہ قرارداد ارکان اسمبلی کی تنخواہ‘ مراعات کے ایکٹ میں ترمیم سے متعلق تھی جس کے تحت ارکان اسمبلی کا سفری الائونس دس روپے فی کلو میٹر سے بڑھا کر 25 روپے کر دیا گیا ہے۔ ارکان اسمبلی کے استعمال نہ ہونے والے فضائی ٹکٹ منسوخ کرنے کی بجائے اگلے سال بھی استعمال کرنے کی منظوری دیدی گئی ہے اور سالانہ ٹریولنگ ووچرز 25 سے بڑھا کر 30 کردیئے گئے ہیں جبکہ ارکان کی مراعات پر نظرثانی کا اختیار ایوان کی کمیٹی کو تفویض کر دیا گیا ہے۔
منظور شدہ قومی بجٹ میں پاکستان سے بیرون ملک ائرٹریول پر ایکسائز ڈیوٹی میں سو فیصد سے بھی زیادہ کا اضافہ کردیا گیا ہے جس کے تحت بیرونِ ملک کے لیئے اکانومی کلاس کے ایئرٹکٹ پر ساڑھے 12 ہزار روپے ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ اسی طرح مشرق وسطیٰ اور افریقہ کیلئے بزنس کلاس‘ فرسٹ کلاس اور کلب کلاس کے ایئرٹکٹ پر ایک لاکھ پانچ ہزار روپے‘ یورپ کیلئے دو لاکھ دس ہزار روپے اور امریکہ کیلئے ایئرٹکٹ پر ساڑھے تین لاکھ روپے کی ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے جبکہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کیلئے ٹکٹ دو لاکھ دس ہزار روپے کر دیا گیا ہے جس سے بیرون ملک سفر کرنے والے ملک کے شہریوں پر مزید اقتصادی بوجھ پڑیگا اور روزگار یا حصولِ تعلیم کیلئے بیرون ملک جانے کی خواہش رکھنے والے پاکستانیوں کی یہ خواہش شرمندۂ تعبیر ہونے کے امکانات بھی کم ہو جائیں گے۔ منظور شدہ قومی بجٹ کے نافذالعمل ہونے کے ساتھ ہی چینی کے نرخوں میں بھی مزید اضافہ ہو جائیگا کیونکہ بجٹ میں مینوفیکچررز پر چینی کی سپلائی کیلئے فی کلوگرام پندرہ روپے عائد کی گئی ایکسائز ڈیوٹی اب چینی کی پراسسنگ اور پیکجنگ پر بھی لگا دی گئی ہے۔ بجٹ میں پٹرولیم مصنوعات پر تجویز کردہ 20 روپے فی لٹر لیوی دس روپے کم کر دی گئی ہے مگر ایل پی جی پر فی میٹرک ٹن 30 ہزار روپیلیوی عائد کرنے کی منظوری دیدی گئی ہے جس سے ایل پی جی کے نرخوں میں بھی مزید اضافہ ہوگا۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پیکڈ دودھ پر ٹیکس بڑھانے کا گزشتہ روز یہ جواز پیش کیا کہ ضروری نہیں کہ پیکڈ دودھ کی حوصلہ افزائی کی جائے‘ ہمیں صحت مند قدرتی دودھ کی جانب جانا پڑیگا۔ اس طرح بالخصوص نومولود اور چھوٹے بچوں کیلئے پیکڈ دودھ استعمال کرنے والے عوام کی اقتصادی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائیگا۔ وزیر خزانہ کے بقول کمزور طبقات کو ریلیف دینے کیلئے جو تجاویز سامنے آئی ہیں‘ ان میں کم از کم تنخواہ بڑھانے اور یوٹیلٹی سٹورز پر اشیاء کے نرخ کم کرنے کی تجاویز شامل ہیں جن پر آگے چل کر غور کیا جائیگا۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق تیار اور منظور کئے گئے اس سخت ترین بجٹ کے باوجود یہ دعویٰ کیا کہ ملک کی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔
یہ تو بجٹ میں عائد کئے گئے نئے ٹیکسوں اور مروجہ ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کے نتیجہ میں ملک میں مہنگائی کے نئے سونامی اٹھنے اور عوام پر مزید اقتصادی بوجھ پڑنے کی منظرکشی ہے جبکہ بجٹ کے علاوہ بھی حکومت کی جانب سے جس بے مہابا انداز میں یوٹیلٹی بلوں بالخصوص بجلی‘ گیس‘ پانی کے نرخوں اور اسی طرح جان بچانے والی ادویات کے نرخوں میں آئے روز اضافہ کیا جاتا ہے‘ وہ راندہ درگاہ ہوئے عوام کیلئے الگ سے عذابِ جان بنا ہوا ہے۔ بجلی کی ترسیل و تقسیم سے منسلک سرکاری ادارے اور نجی پاور کمپنیاں مختلف سلیبز بنا کر اور فی یونٹ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرکے جس طرح عوام کو کند چھری کے ساتھ ذبح کررہی ہیں‘ اس سے موت و حیات کی کشمکش میں پڑے عوام کا مزید مضطرب ہونا فطری امر ہوگا۔ یہ ملک میں سیاسی اور اقتصادی استحکام کیلئے سازگار فضا ہرگز نہیں کہلا سکتی۔ اس صورتحال میں عوام کے جذبات مشتعل ہونگے تو حکومت کیلئے گورننس اور امن و امان کا مسئلہ بھی سنگین ہو سکتا ہے۔
اب چونکہ وفاقی اور صوبائی بجٹ متعلقہ اسمبلیوں میں منظور ہو چکے ہیں اس لئے منتخب ایوانوں کے ذریعے ان میزانیوں میں کسی ترمیم کے تحت عوام کو ریلیف دینے کا امکان بھی عملاً ختم ہو چکا ہے چنانچہ اب عوام کو مطمئن کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ بجلی‘ گیس‘ پانی اور ادویات کے نرخ خاطرخواہ کم کر دیئے جائیں‘ بجلی بلوں پر سلیبز والا امتیاز ختم کر دیا جائے اور پٹرولیم نرخوں میں بھی اضافے کے بجائے مزید کمی کی جائے۔ اسی طرح مصنوعی مہنگائی کے ذریعے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لْوٹنے والے مافیاز پر حکومتی گورننس کی دھاک بٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ یقیناً حکومتی اتحادی جماعتوں کی قیادتوں کی آزمائش ہے بصورت دیگر اپوزیشن بالخصوص تحریک انصاف کے ایجنڈے کے خلاف کوئی حکومتی بیانیہ کاگر نہیں ہو سکے گا۔