مل جائے وفادار تو۔۔۔۔
ہم لوگ بھی کیا کمال کے لوگ ہیں۔ اپنے آ باؤ اجداد کی قربانیوں سے حاصل کی جانے والی آ زاد ریاست، مملکت خداداد پاکستان میں تمام اصولوں اور روایات سے بے وصولی کرتے ہوئے بھی شکوہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ 76 سال گزر جانے کے باوجود حقیقی آ زادی نہیں ملی۔ اگر ایک شخص ایسا وفادار مل جائے جو حقیقی معنوں میں ملک و ملت سے محبت اور اسکے بسنے والوں کے مسائل سے واقف ہو تو بات بن جائے۔ 25 کروڑ عوام بس یہی سوچ رہے ہیں۔ کوئی اپنا احتساب کرنے کے موڈ میں نہیں اور حکومتوں کے احتساب پر اعتماد نہیں کیونکہ 1973ء کے متفقہ آ ئین کی موجودگی میں بھی ہمیں کچھ نہیں ملا۔ ہمیں تو سب سے پہلے پاکستان کا سبق بھی ایک ڈکٹیٹر نے پڑھاتے ہوئے احتساب کا راستہ دکھایا تھا۔ ہم ٹھہرے جمہوری لہٰذا آ مر کی باتیں بھلا ہمیں کیسے اچھی لگتیں، لیکن ہم نے منتخب حکومتوں میں بھی اس کا احتسابی ادارہ نیب ختم کرنے کا کبھی نہیں سوچا اس لیے کہ یہ تو مخالفین کے خلاف بہترین ہتھیار ثابت ہوا ہے۔ ایک نہیں تینوں بڑی پارٹیوں نے اس سے استفادہ کیا۔ پھر بھی آج پاکستان پیپلز پارٹی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ نیب اور جمہوریت اکٹھے نہیں چل سکتے۔ یہ پارٹی بھی عجیب ہے۔ آ پ اختلافات کریں یا اتفاق۔ اسی نے آ ٹھویں ترمیم سے آ ئینی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے برسوں بعد صوبوں کو کسی حد تک خود مختاری دی تو اس سے بھی کچھ لوگ آ ج تک پریشان ہیں۔ اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور سابق وزیراعظم شہید چیئر پرسن کے بعد بھی مسٹر 10 پرسنٹ کہلانے والے آ صف علی زرداری نے ،پاکستان کھپے کہہ کر مملکت کو انتشار سے بچا لیا۔ نواز شریف کو کرپٹ اور لٹیرا قرار دے کر جیل میں ڈالا گیا لیکن ان کے دور میں بھی قومی منصوبوں ان کی تکمیل، ترقی اور بہتری کے باوجود ایک ایسا مسیحا ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی بلکہ حالات کار بنائے گئے کہ کوئی تیسرا وفادار مل جائے تاکہ دونوں سے جان چھوٹ جائے۔ کچھ کا خیال ہے کہ یہ مقامی ایجنڈا تھا لیکن آ ثار بتاتے ہیں کہ اس میں تڑکا دوسروں نے لگایا۔ پھر ایک شخص تلاش کر کے اس کے گرد ہجوم اکٹھا کیا گیا۔ بات پھر بھی نہیں بنی کیونکہ اناڑی اور کھلاڑی میں فرق ہوتا ہے۔ دعوی اس کا بھی حقیقی آ زادی اور پاکستان کو قائد اعظم و علامہ اقبال کے خواب کے مطابق فلاحی مملکت بنانا تھا۔ پرانی پراڈکٹ کو جدید دور کے مطابق مارکیٹ کیا گیا۔ بر انڈ خوب بکا مخالفین نے واویلا کیا کہ جعلی مال سے دھوکہ نہ کھائیں تاہم طاقتوروں کا اندازہ یہی تھا کہ مل جائے وفادار تو اک شخص بہت ہے۔ لیکن بناسپتی مال بناسپتی ہی ہوتا ہے خواہ اسے جتنا مرضی اسلامی اور ولایتی ٹچ دے دیا جائے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے جبکہ چوروں اور لٹیروں کے احتساب کی یقین دہانی کرانے والا آ ج خود اسی جال میں نہ صرف پھنسا ہوا ہے بلکہ وہ اب بھی نیب کے خاتمے کے لیے تیار نہیں۔ وہ حکومتی ترامیم کی مخالفت کے باوجود اصلاحات کے ذریعے نیب کی بقا بھی چاہتا ہے۔ بس یہی ہماری حقیقی تصویر ہے۔ تضاد بیانی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ آ ئین، قانون، ادارے موجود اور ہم خود کو اس کا پابند کرنے کی بجائے ایک وفادار کی تلاش میں ہیں۔ اپنے نہ گریبان میں جھانکنے کو تیار ہیں اور نہ ہی حالات و واقعات اور پارلیمانی روایت سے کچھ سیکھنے کو۔ اس لیے کہ ہم سب آ زادی کے نام پر مادر پدر آ زادی چاہتے ہیں۔ ہم نان ایشو کو ایشو بنا کر بنانے اسے زیر بحث لا کر وقت گزاری کے عادی ہو چکے ہیں۔ تین مارشل لائی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن ہر منتخب اور صاحب منصب کے اندر کسی نہ کسی روپ میں آ مر موجود ہے۔ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں۔ اندازہ اسی بات سے لگالیں کہ بجٹ اجلاس میں 98 فیصد بحث غیر ضروری معاملات پر ہوتی رہی۔ آ ج نہیں ہمیشہ بات کا بتنگڑ بنا کر حکومت اور اپوزیشن اپنا ا پنا الوسیدھا کرتی ہیں۔ شب و روز وفادار کی تلاش میں رہتی ہیں۔ حکومت کو بلیک میل کرنے کے لیے اپوزیشن صوبائی ،علاقائی محرومی کارڈ چلاتی ہے، بلند بانگ دعوؤں سے خبروں کی شہ سرخیاں بنتی ہیں اور مفادات کارڈ کیش کرا کے فائدہ حاصل کیا جاتا ہے۔
اسی طرح ہر دور میں حکومت بھی مل جائے وفادار کے چکر میں ہوتی ہے۔ عمرانی دور کے لیے ڈھونڈنے والوں نے جہاز بھر بھر کے وفادار تلاش کئے لیکن بدقسمتی کہ نتائج امید کے مطابق نہ نکلے۔ موجودہ دور میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی میثاق جمہوریت میں مبتلا ہے۔ ہلکی پھلکی سیاسی نوک جھو نک چلتی ہے پھر روٹھے مان جاتے ہیں جبکہ اپوزیشن نے بھی بجٹ ہنگامہ آ رائی کے لیے تھوڑی مشکل برداشت کرتے ہوئے جے۔ یو۔ آ ئی کو منا لیا۔ وزیراعظم شہباز شریف معاشی بحران سے نجات اور سیاسی استحکام کے لیے قومی اسمبلی میں مذاکرات کے ساتھ میثاق معیشت کی ایک مرتبہ پھر پیشکش کر چکے ہیں لیکن اپوزیشن اسکے عوض 9۔ مئی سے نجات اور عمران خان کی رہائی چاہتی ہے۔ دوسری جانب فضا میں مشاہد حسین سید کی تجویز کی صدائے بازگشت بھی موجود ہے کہ امریکی فون سے پہلے سابق وزیراعظم کو رہا کر دیا جائے۔ ابھی اس تجویز کو مذاق ہی سمجھا جا رہا تھا کہ امریکی کانگرس نے ایک قرارداد کے ذریعے ایسے سابق وزیراعظم کی رہائی کا مطالبہ کر دیا جس کا دعوی تھا کہ اس کی حکومت امریکہ نے گرائی ہے۔ اب یہ بات ثابت ہو گئی کہ عمران خان نے بھاری رقم کی لاگت سے تعلقات کی بہتری کے لیے جن کمپنیوں کی خدمات حاصل کی تھیں وہ کامیاب ہو گئیں۔ یعنی انہیں وفادار مل گئے۔ موجودہ حالات میں دہشت گردی کے ناسور کا خاتمہ کرنے کے لیے عزم استحکام آ پریشن کی موجودگی میں اہم کامیابیاں ملیں اور انکشاف بھی ہوا کہ غیر ملکی خفیہ ایجنسیاں ٹی۔ ٹی۔پی اور بلوچ لبریشنسے رابطے میں ہیں۔ پھر بھی پی۔ ٹی۔ آ ئی اور کے۔ پی۔ کے کی حکومت تعاون کے لیے تیار نہیں۔ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے مشکلات بہت ہیں لیکن وہ بھی کسی وفادار کے لیے فکر مند ہیں کیونکہ ہمارے ہاں تضاد بیانی اور سیاست بازی کا بازار گرم ہے۔ بد اعتمادی ایسی ہے کہ غدار غدار کا کھیل عروج پر ہے۔ الزامات ہی الزامات ہیں۔ چہرے پہچانے نہیں جا رہے۔ ایسے میں پتہ نہیں کیوں یہ شعر میرے ذہن میں گھوم رہا ھے کہ!
لازم نہیں حیات میں احباب کا ہجوم
مل جائے وفادار تو اک شخص بہت ہے
٭…٭…٭