کے پی کے کا نظام سقہ
نظام سقہ کون تھا آج کی نسل سے اگر یہ سوال کیا جائے تو یقینا الٹا وہ آپ کو ہی سوالیہ نظروں سے دیکھیں گے لیکن تاریخ اور مطالعہ سے وابستہ سب لوگ اس خوش بخت ماشکی کو جانتے ہیں کہ کس طرح مغل بادشاہ نصیر الدین ہمایوں نے دوبارہ حکومت ملنے پر اس ماشکی کے احسان کا بدلہ اس کے سر پر تاج رکھ کر ایک دن کے لیے بادشاہ سلامت بنا کر دیا جو محض اس کا بادشاہ کی جان بچانے کا ایک انعام تھا مگر اس ایک روزہ حکومت میں ایک ریاستی حکومتی دانائی اور فہم و فراست سے اور تجربہ سے عاری ایک ماشکی سے ایک دن کے ریاستی نظم و نسق کی کیا امید کی جا سکتی تھی اور وہ یہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ خرابی کا احتمال اور کم از کم خیر اور بھلائی کی توقع۔ کیونکہ اس وقت معاملہ سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے جب اقتدار قلیل وقت کے لیے ہو اور حکمران گنوار اور اجڈ ہو۔ کیونکہ نا تجربہ کاری اور عجلت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ریاستی وسائل سمیٹنے کی سوچ کے تحت نظام سقہ جیسا حکمران راتو ں رات انقلاب برپا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو سسٹم کولیپس کر جاتا ہے یا گر جاتا ہے اور پھر لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ نظام سقہ کی ایک روزہ حکومت کے بعد بادشاہ ہمایوں کو کیا قیمت چکانی پڑی اور کیا نتائج بھگتنے پڑے یہ تو وہ خود ہی جانتا ہوگا یا پھر اس وقت کے عوام۔
لیکن آج کل پاکستانی صوبہ خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلی علی امین گنڈا پور دور حاضر کے نظام سقہ ثابت ہو رہے ہیں جس سے ریاست کو آئے روز لینے کے دینے پڑے ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں تھوڑی سی نوعیت مختلف ہے۔ یہاں موصوف وزیراعلی کا کردار تو نظام سقہ والا ہے لیکن حکومتی میعاد ایک دن کی بجائے پانچ سالہ ہے جن میں سے چھ ماہ تو گزر چکے ہیں۔ نظام سقہ پر حکومتی تاج بادشاہ ہمایوں نے رکھا تھا لیکن یہاں عجیب منطق ہے کہ گنڈا پر حکومت کا تاج قیدی نمبر 804 نے رکھا ہے۔طخیبر پختون خواہ بھی پاکستان کی فیڈریشن کی دیگر اکائیوں کی طرح ایک انتہائی اہم اکائی ہے۔ ہمیشہ صوبائی وسائل کی تقسیم اور مسائل کا حل فیڈریشن کرتی ہے لیکن اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اپنے بجٹ کو خود ہی متعین کرنے کے ساتھ ساتھ صوبائی نظم و نسق کو خود چلانا ہوتا ہے اور ان تمام مراحل میں ہمیشہ جمہوری انداز میں وفاق کے ساتھ کسی بھی قسم کی کنفرنٹیشن یا الجھاؤ کے بغیر قومی و صوبائی معاملات کو حل کیا جاتا ہے مگر آج کل کے پی کے حکومت مسلسل وفاق کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے اور اس کی بنیادی وجہ تحریک انصاف کے ہر کارکن سے لیڈر تک عمران خان کی جانب سے گھٹی میں ملنے والی نفرت ٹکراؤ ہٹ دھرمی اور خود غرضانہ سوچ کا ہونا ہے۔
ویسے تو چھ ماہ میں کے پی کے حکومت کی کاکردگی صفر ہے مگر فیڈریشن سے ٹکراؤ اور اناڑی پن کے ساتھ ساتھ غیر جمہوری اور غیر پیشہ ورانہ حرکات اپنے عروج پر ہیں۔ یعنی اگر پورا ملک شمال کی طرف چل رہا ہے تو حکمران انصافی کارندے جنوب کی طرف چل پڑتے ہیں اور ایسا کامل گمان ہو رہا ہے کہ گنڈا پور کا مقید لیڈر اپنی انا کی خاطر اور غصے کی بھڑاس نکالنے کے لیے صوبہ کے حکومتی سربراہ کو ایسی ایسی نامعقول اور مضحکہ خیز گائیڈ لائن فراہم کر رہا ہے کہ ریاست کے اندر ایک ریاست کھڑی ہو سکے اور اگر گنڈا پور کے چھ ماہ کے بیشتر حکومتی اقدامات کی بات کی جائے تو یہ کبھی آئین سے متصادم تو کبھی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے متصادم۔ اور کبھی اخلاق سے عاری دیکھنے کو ملتے ہیں۔
موصوف وزیراعلی کے کارہائے نمایاں تو اردو کے اس محاورہ کی مانند ہیں جس میں کہا جاتا ہے کہ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔ مطلب ہر کام الٹ اور پلٹ۔ پاکستانی تاریخ میں آج تک وہ کون سا صوبہ ہے جس نے وفاق سے پہلے بجٹ پیش کیا ہو تو جناب گنڈا پور نے سب صوبوں بلکہ وفاق سے بھی پہلے کے پی کے کا بجٹ کھڑکا کر اپنا نام سنہری حروف میں رقم کر دیا۔ دوسرا یہ کہ وہ کون سا وزیراعلی ہے جس نے براہ راست اپنے صوبے کے گورنر کو کھلے عام اور ننگی گالیاں دی ہوں تو جناب یہ شرف خاص بھی گنڈا پور کے کھاتے میں جاتا ہے۔ بات یہاں ہی ختم نہیں ہو رہی پاکستان کے76 سالہ دور میں وہ کون سا وزیراعلی رہا ہے جس نے حملے اور جتھوں کو جائز قرار دے کر ان کو ٹارگٹ دیا ہو کہ اگر وفاقی ادارہ واپڈا لوڈ شیڈنگ کرتا ہے تو ایم پی اے ایم این اے حضرات اپنے اپنے علاقوں میں جا کر خود گرڈ اسٹیشنز کا چارج سنبھال لیں۔ یہ ریاست دشمن اعزاز بھی گنڈا پور صاحب کو ملا اور پھر سب نے دیکھا کسی طرح جہلا کے گروہوں نے ریاستی املاک کو قبضہ میں لیکر نقصان پہنچایا اور جنگل کے قانون کی ریت قائم کر ڈالی۔
مزید یہ کہ وہ کون سا وزیراعلی ہے جو اپنے ہی صوبہ میں دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے اپریشن عزم استحکام کی مخالفت کر رہا ہے تو یہ بھی جناب علی امین گنڈا پور ہی ہیں جو اپنے صوبے کے امن کے خود دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ابھی تو اس ریاست مخالف فہرست میں موصوف کے اور بھی بہت سے افعال شرمندگی شامل ہیں مگر ان پر ہی اکتفا کر کے بات کر لی جائے تو یہ بات صد فیصد درست ہے کہ عمران خان اور ان کے صوبائی وزیر اعلی نے ملک کو عدم استحکام سے دوچار رکھنے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور وہ زمینی حقائق اور تقاضوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر ریاست سے صرف ٹکراؤ ٹکراؤ اور ٹکراؤ ہی چاہتے ہیں جہاں ایک منتخب وزیراعلی قومی سلامتی کیمٹی کے فیصلوں کے مقابلے میں جرگہ بلانا چاہ رہا ہے۔ کیا ملک کی سیاسی جمہوری جماعتیں ایسی ہوتی بالکل بھی نہیں بلکہ ایسے گروہوں کو پریشر گروپ کی قرار دیکر ان سے ویسا ہی برتاؤ کرنا چاہیے جو ملک کے کھلے دشمن کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ مگر اس منظر نامے میں ہر ذی شعور پاکستانی سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا جتھوں کی صورت میں گرڈ اسٹیشنوں پر حملہ کرنے والے پاکستانی ہیں اور ایسے گنوار اور جاہل لوگ صوبائی اور قومی مقننہ میں کیسے پہنچ گئے ؟ کیا اب ملک میں جمہوری و آئینی طریقوں کی بجائے صوبے کے عوام کے حقوق دھن دھونس سے حاصل کیے جائیں گے ؟اور کیا ایسے جارہانہ رویوں کے لوگوں کی موجودگی ریاست کے لیے مستقل طور پر بہت بڑا تھریٹ نہیں ہے؟۔
ّّّٔ