• news

درجنوں اشیا مہنگی: عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز 

وفاقی بجٹ کے نفاذ کے ساتھ ہی  مہنگائی کا آغاز ہو گیا ہے۔10سے18فیصد تک جی ایس ٹی کا اطلاق ہونے کے بعد ٹیٹرا پیک، خشک دودھ،بیکری مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ، چاول کی قیمتوں میں بھی بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ مختلف کیٹگریز کے خشک دودھ کی قیمتوں میں 100سے لے کر 300روپے تک اضافہ ہو گیا ہے۔ اسی طرح بیکری مصنوعات بنانے والی کمپنیوں نے بھی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے جس میں بن 5روپے اضافے سے 50روپے ، شیر مال 5روپے اضافے سے65روپے ،میڈیم ڈبل روٹی 10روپے اضافے سے 150روپے ہو گئی۔ آٹے کی قیمت میں مسلسل اضافے کا رجحان  نوٹ کیا گیا ہے۔ مارکیٹ میں چاول کی قیمت میں بڑا اضافہ دیکھا گیا ہے اور پچیس کلو بیگ کی قیمت800روپے اضافے سے5900روپے تک پہنچ گئی۔
مہنگائی کے بڑھتے چلے جانے سے عام آدمی کی قوت خرید بری طرح متاثر ہوئی ہے-2022ء  میں اقتدار میں آنے کے بعد اتحادی حکومت کی طرف سے سخت فیصلے کیے گئے- وزیراعظم شہباز شریف اس وقت بھی اور آج بھی کہتے ہیں کہ ہم نے ریاست بچانے کے لیے اپنی سیاست قربان کر دی تھی۔ قوم نے حکومت کی مجبوریوں کا ادراک کرتے ہوئے کڑے فیصلوں کو مستقبل میں زندگی آسان بننے کی توقعات پر قبول کیا۔حکومتی اتحادی کہا کرتے تھے کہ ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا-کڑے فیصلوں کے باعث جو عوام نے برداشت کئے ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا-اب عوام اس کے ثمرات چاہتے ہیں - وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز پاکستان کی معروف کاروباری شخصیات کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا کہ کاروبار دوست پالیسیوں سے معیشت مستحکم ہوئی ہے -بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ معاشی طور ملک درست سمت کی طرف گامزن ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے اقدامات شامل ہیں۔زمینی حقائق کو مد نظر رکھا جائے تو عوام کی زندگی بجٹ کے بعد مزید مشکل ہو گئی ہے۔معیشت مستحکم ہوئی ہے تو عوام کو اس کے مطابق ریلیف کب ملے گا ؟مہنگائی سے نجات کب حاصل ہوگی؟؟  
کل تک مسلم لیگ نون کا حصہ رہنے والے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی طرف سے کہا گیا کہ حکومت پہلے اپنے اخراجات کنٹرول کرے۔ قرضہ لے کر پانچ سو ارب روپے ارکان میں تقسیم کر دیئے گئے۔یہ دونوں لیڈر آج بھی حکومتی حلقوں میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ان کے جواب میں وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ حکومت جتنے اخراجات کم کر سکتی تھی اتنے کر لیے گئے ہیں۔500 ارب کے ترقیاتی فنڈز کا دعویٰ غلط ہے۔اخراجات میں کمی کے حکومتی دعوے اپنی جگہ۔مزید اخراجات بھی کم کیے جا سکتے ہیں۔اس حوالے سے بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف ہی نے اپنے گزشتہ دور میں ناصر خان کھوسہ کی سربراہی میں حکومتی وسائل کی بچت کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے اپنی سفارشات میں ایک ہزار ارب روپے کی بچت کی نشاندہی کی تھی۔ان سفارشات پر عمل نہیں کیا گیا بلکہ اب ایک اور کمیٹی بنا دی گئی جس کی رپورٹ حکومت کو موصول ہو چکی ہے۔ اب اس کمیٹی کی رپورٹ پر عمل درآمد کرنے کے لیے ایک اور کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
حکومتی دعوؤں کے مطابق عوام کو بجٹ میں ریلیف دیا گیا ہے  اور مہنگائی میں کمی ہوئی ہے لیکن حکومتی دعوے حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ 3 جون کو جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کو ملک میں مہنگائی میں 3.24 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی جس کے بعد مئی میں مہنگائی کی شرح 11.76 فیصد ہوگئی۔گزشتہ روز ادارہ شماریات کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت مہنگائی کا سالانہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔وفاقی ادارہ شماریات نے مہنگائی پر ماہانہ رپوٹ  میں کہا  ہے کہ جون میں ماہانہ بنیادوں پر مہنگائی میں 0.46 فیصد اضافہ ہوا۔ جون میں مہنگائی کی شرح 12.57 فیصد رہی، مئی 2024 میں مہنگائی کی شرح 11.76 فیصد تھی۔جون کے دوران شہروں میں مہنگائی میں 0.58 فیصد جبکہ دیہات میں 0.28 فیصد اضافہ ہوا۔
عوام مہنگائی کے ہاتھوں واقعی تنگ ہیں۔ان کو جو حکومت کی طرف سے ریلیف دیا گیا تھا وہ بھی واپس جاتا ہوا نظر آرہا ہے۔گندم کی نئی فصل آنے پر  آٹیکی قیمتوں میں آنے والی کمی کے بعد اب ایک بار پھر آٹے کی قیمت میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے،ایک ہفتے کے دوران آٹے کی قیمت دو دفعہ بڑھ چکی ہے۔چار روز قبل لاہور اور راولپنڈی ڈویڑنز میں گندم کی قیمتیں بڑھتیہی بیس کلو کیآٹیکے تھیلے کی قیمت 150 روپے تک بڑھ گئی تھی 20 کلو  آٹیکا  تھیلا لاہورمیں 1650 روپے سے بڑھ کر 1700 روپے اور راولپنڈی میں1850 روپے کا ہوگیا جبکہ 10 کلو آٹیکا تھیلا 800  روپے سے بڑھ کر 850 روپے کا ہوگیا تھا۔گزشتہ روز لاہور میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 150 روپے کے مزید اضافے سے1950 روپے تک پہنچ گیا۔
بجلی کے اضافی بلوں کو لے کر لوگ مظاہرے کر رہے ہیں۔ یہ بل جمع کرانے کی ان میں سکت نہیں ہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔جماعت اسلامی  نے مہنگائی کے خلاف 12 جولائی کو اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کیا ہے۔جماعت اسلامی کے امیرحافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کی ملک گیر ہڑتال پر مشاورت جاری ہے، دھرنا ٹیکسز، بجلی نرخ بڑھانے اور بلوں میں سلیب کے خلاف ہوگا، بجلی بل بھرنے کیلئے لوگ اپنی چیزیں بیچ رہے ہیں، حکومت کو ظالمانہ بجٹ دینے پر کوئی شرمندگی نہیں، وزیراعظم فخر سے کہتے ہیں آئی ایم ایف کے کہنے پر بجٹ بنایا۔حافظ نعیم الرحمن کی طرف سے جو کہا گیا یہی عمومی عوامی رائے ہے۔بجٹ کی منظوری کے بعد بھی حکومت نے آئی ایم ایف کی ہدایت پر گیس اور بجلی کے نرخ بڑھا دیئے عوام اس پر بھی نالاں ہیں۔ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔حالات تنگ آمد بجنگ آمد کی طرف بڑھ رہے ہیں۔حکومت عوام کو سبسڈی کے ذریعے، پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں کمی یا کسی بھی طریقے سے ریلیف دینے کی کوشش کرے۔

ای پیپر-دی نیشن