پاکستان، چین، امریکہ تعلقات
پاکستان پسماندہ اور مقروض ملک ہے البتہ دنیا کے نقشے پر اس کی جیو لوکیشن کی وجہ سے دنیا کے بڑے ممالک پاکستان میں دلچسپی لیتے رہے ہیں- میرٹ اہلیت اور نیشنلزم کے فقدان کی وجہ سے پاکستان اپنی آئیڈیل لوکیشن اور ایٹمی صلاحیت کو اپنی اجتماعی ترقی اور خوشحالی کے لیے استعمال نہیں کر سکا- امریکہ قیام پاکستان سے پہلے ہی آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی لیڈروں کے ساتھ رابطے میں تھا-اس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا اور سفارتی تعلقات قائم کیے-پاکستان کے بانی اور پہلے گورنر جنرل قائد اعظم کو جب خارجہ امور کے بارے میں پالیسی سمری پیش کی گئی تو قائدا اعظم نے اس پر تحریر کیا-
" The devil we know is better than the devil we do not know "
انہوں نے کہا کہ "امریکہ اور روس دونوں شیطان ہیں لہذاجس شیطان( امریکہ) کو ہم جانتے ہیں وہ اس شیطان (روس )سے بہتر ہے جس کو ہم نہیں جانتے-" اس ریاستی پالیسی کے بعد پاکستان کے امریکہ کے ساتھ خصوصی تعلقات قائم ہو گئے-یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا جو امریکہ اور روس دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان جاری تھی-امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ روس کا اثر و رسوخ گرم پانیوں اور مشرق وسطیٰ تک پہنچ سکے-اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ پاکستان کی فوج اس کے عالمی مفادات کا تحفظ اور دفاع کر سکتی ہے-چنانچہ امریکہ نے پاک فوج کے ساتھ خصوصی تعلقات قائم کیے البتہ پاکستان کو بطور ریاست اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہونے دیا تاکہ وہ عالم اسلام کی لیڈرشپ سنبھالنے کیقابل نہ ہو سکے-پاک بھارت 1965ء کی جنگ کے دوران امریکہ کا اصل چہرہ سامنے آ گیاجب اس نے پاکستان کا اتحادی ہونے کے باوجود پاکستان پر اسلحہ اور سپیئر پارٹس کی سپلائی پر پابندی عائد کر دی-جنرل ایوب خان نے ایک کتاب" فرینڈز ناٹ ماسٹرز "لکھ کر اپنے دکھ کا اظہار کیا-1965ء کی جنگ کے بعد پاکستان کے لیڈروں کو یہ احساس ہوا کہ امریکہ پر مکمل طور پر بھروسہ کرنا پاکستان کے قومی مفاد میں نہیں لہذا انہوں نے چین کی جانب رجوع کیا اور اس سلسلے میں ذوالفقار علی بھٹو نے وزیر خارجہ پاکستان کی حیثیت میں پاک چین دوستی کی مضبوط بنیاد رکھی-امریکہ نے پاکستان کو افغان روس جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے اپنے سامراجی عزائم اور قومی مفادات کی خاطر استعمال کیا- 80 ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کرنے اور ایک سو بلین ڈالر سے زیادہ کا مالی نقصان برداشت کرنے کے بعد پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اس نتیجے پر پہنچی کہ آئندہ پاکستان کسی پرائی جنگ میں شریک نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ کسی متحارب عالمی بلاک کا حصہ بنے گا-امریکہ گاہے بگاہے پاکستان پر مختلف نوعیت کی پابندیاں بھی عائد کرتا رہا ان پابندیوں کی وجہ سے پاکستان کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اپنی دفاعی ضروریات کے لیے چین اور روس سے روابط قائم کرے- جو قارئین امریکہ کی بے وفائیوں اور احسان فراموشیوں کی داستان پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں وہ علم و عرفان پبلشرز اردو بازار لاہور کی مطبوعہ کتاب "آزادی سے غلامی تک" کا مطالعہ کریں-
چین نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ وفاداری نبھائی-چین خلوص نیت کے ساتھ یہ کوشش کرتا رہا ہے کہ پاکستان معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہو جائے-چین نے کئی بار سلامتی کونسل میں مقبوضہ کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کی خاطر ویٹو کا اختیار استعمال کیا-چین نے پاکستان کے اندر ایسے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی جو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری تھے-سی پیک کا منصوبہ تاریخ ساز اور گیم چینجر منصوبہ ہے - افسوس کہ پاکستان کے پاس وہ اہلیت اور صلاحیت ہی موجود نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے وہ اس تاریخی منصوبے سے بھرپور فائدہ اٹھا سکے-پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات انتہائی دوستانہ اور خوشگوار ہیں جن کو ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہرا قرار دیا جاتا ہے-امریکہ آج بھی دنیا کی سپر پاور ہے جبکہ چین دوسری عالمی طاقت ہے جو چند سالوں کے بعد امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ دے گی-قدرتی طور پر امریکہ اور چین کے درمیان عالمی سربراہی کی سرد جنگ جاری ہے- امریکہ نہیں چاہتا کہ چین اس سے اگے نکل جائے امریکہ آئی ایم ایف کے ذریعے اور کانگریس میں پاکستان کے انتخابات کے سلسلے میں بھاری قرارداد منظور کرکے موجودہ حکومت کو سیاسی طور پر دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے تاکہ پاکستان کے اندر چین کے اثرورسوخ کو محدود رکھا جا سکے-پاکستان امریکہ کو ناراض کرنے کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا-پاکستان کو معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کی ضرورت ہے جو امریکہ کے کنٹرول میں ہیں-سفارت کاری کے ماہرین کے مطابق پاکستان کو چاہیے کہ وہ امریکہ اور چین دونوں کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھے-پاکستان کی کئی محب الوطن شخصیات پاک چین دوستی کو آگے بڑھانے کے لیے غیر سرکاری طور پر کوششیں کرتی رہتی ہیں-اس ضمن میں سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کا کردار قابل ستائش ہے جنہوں نے چین کے دورے کر کے پاکستان کے مفادات کو آگے بڑھایا- ان کا کہنا ہے کہ چین کی قیادت ہمیشہ یہ کہتی رہی ہے کہ پاکستان کو امریکہ اور ہندوستان دونوں سے تعلقات خوشگوار رکھنے چاہئیں - پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری، جو انڈر سٹیڈنگ چائنہ فورم اور انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ کونیکٹیویٹی اور پاکستان فورم کے چیئرمین ہیں پاک چین تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے مثبت کردار ادا کر رہے ہیں گزشتہ ماہ انہوں نے چین کا سات روزہ دورہ کیا جس کے دوران انہوں نے وزارت خارجہ کے سینیئر اہلکاروں سے ملاقاتیں کیں اور چائنہ کے معتبر اور نامور تھنک ٹینکس جن کا تعلق زراعت اور آئی ٹی سے ہے ان سے مذاکرات کیے-پاکستان اور چین دونوں کی خواہش ہے کہ پاکستان میں زراعت اور آئی ٹی کے شعبوں میں ترقی کے کافی امکانات موجود ہیں لہذا ان پر خصوصی توجہ دینی چاہیے-خورشید محمود قصوری کی رائے ہے کہ پاکستان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چوائس ہی نہیں کہ وہ امریکہ اور چین دونوں سے اپنے تعلقات خوشگوار رکھے۔ ان کے دورے کو چین کے پرنٹ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے بڑی اہمیت دی-سینٹر مشاہد حسین پاک چین دوستی کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے قابل ستائش کوششیں کر رہے ہیں اور آج کل بھی وہ چین کے دورے پر ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ امریکہ کو ہم نے آزما لیا ہے اس پر مکمل انحصار نہیں کیا جا سکتا جبکہ چین ہمارا قابل اعتماد دوست ہے دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور دونوں ملکوں کا مستقبل بھی سانجھا ہے لہذا ہمیں چین کی جانب خصوصی توجہ دینی چاہیے اور اسے کسی صورت ناراض نہیں کرنا چاہیے-پاکستان کے سینئر سفارت کاروں کا یہ خیال ہے کہ پاکستان کو اپنے اندرونی مسائل پر زیادہ توجہ دینی چاہیے کیونکہ جب تک پاکستان اندرونی طور پر مضبوط اور مستحکم نہیں ہوگا اس کی خارجہ پالیسی بھی کمزور ہی رہے گی-اور دنیا کی بڑی طاقتیں اس کو بلیک میل کرتی رہیں گی- پاکستان کو سادگی کفایت شعاری اور خود انحصاری کے اصول پر عمل کرکے اپنے اندرونی مسائل پر قابو پانا چاہئے -
=…=…=