56 نکات۔داتا دربار ہسپتال اور عوام دشمن یو ٹرن
مریم نواز شریف پنجاب کی پہلی وزیر اعلی کی حیثیت سے کچھ نیا کرنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں بجٹ خطاب، پنجاب ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام ، لبرٹی ایریا میں ٹرام چلانے کے پلان اور مختلف اقدامات سے اس خواہش کا عملی اظہار بھی ہو رہا ہے۔ کابینہ کے دسویں اجلاس میں خاص طور پر پنجاب کے مختلف شعبوں کے بارے میں جو فیصلے کئے گئے ہیں ان سے بھی اس تاثر کو تقویت ملتی ہے۔اس اجلاس میں ایک بڑے پروگرام کی حد بندی ہوئی۔ اچھی بات ہے لیکن ضروری ہے کہ ماضی میں یا نگران دور میں کچھ غلط ہوا ہے تو اس کو ٹھیک کرنے کی منصوبہ بندی بھی اس 56 نکاتی منصوبے میں شامل کی جائے۔ ان کی صدارت میں ،چار گھنٹے طویل اجلاس میں جس 56 نکاتی ایجنڈے پر غور کیاگیااس میں دور دراز علاقوں میں ڈاکٹروں کی عارضی بنیادوں پر فوری تقرری اورڈاکٹرز کے لئے الاؤنس بڑھانے کی منظوری - وزیر اعلیٰ پنجاب کسان کارڈ کی بھی منظوری -کابینہ نے پنجاب سکھ آنند کراج میرج رجسٹرار رولز 2024ء اور پنجاب سکھ آنند کراج میرج رولز 2024ء کی منظوری - جس پر وزیراقلیتی امور رمیش سنگھ اروڑہ نے کہاکہ پنجاب دنیا بھر میں سکھ میرج ایکٹ نافذ کرنے والا پہلا صوبہ بن گیاہے-انڈیا میں بھی سکھوں کو ہندو ایکٹ کے تحت میرج رجسٹرڈ کرانا پڑتی ہے۔۔۔ -بنیادی مراکز صحت، دیہی مراکز صحت اور بعض تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتالوں پر ڈاکٹرز کے الاؤنس میں اضافے کی منظوری - ٹی بی ہسپتال سرگودھا، جوبلی فی میل ہسپتال بہاولپور اور مزنگ ہسپتال لاہور کا انتظام منتقل کرنے کی ہدایت۔چنگ چی اور رکشے کو بتدریج متبادل ماحول دوست ٹرانسپورٹ،ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمین کے سرکاری گھرکی الاٹمنٹ میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ، پنجاب میں تمام محکموں کے لائبریرین (BS-16) کو ماسٹر ڈگری حاصل کرنے پر (BS-17) دینے کی منظوری ،بہاولپور کے صادق گڑھ محل کو ''محفوظ قدیم عمارت'' قرار دینے کی منظوری،پنجاب ڈرگزرولز 2007ء میں ترامیم ،پنجاب میں پلگ اینڈ پلے گارمنٹ سٹی کے قیام کا فیصلہ، اپنی چھت اپنا گھر پروگرام کی منظوری، نویں سے 12ویں جماعت کے لیے پاکستان کے قومی نصاب 2023 (فیز-III) اور پہلی سے 12ویں جماعت کیلئے دینی تعلیم کے جدید/نظرثانی شدہ نصاب کو اپنانے کی منظوری ،یتیم طلبہ کو الیکٹرک بائیک دینے کیلئے طریقہ کار کی منظوری سمیت ایسے ہی متعدد پروگرام شامل ہیں جن پر عمل درامد سے بہت کچھ بدل سکتا ہے۔
ماضی کے جن غلط فیصلوں کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے ان میں سے مشتے از خروارے دو معاملات۔ سابق نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی نے اپنے دورمیں پنجاب کے مختلف شعبوں اور خاص طور پر محکمہ صحت میں بہت سرگرمی دکھائی۔ خاص طو پر مختلف ہسپتالوں میں جا جا کر یہ تاثر دیا کہ ان کی نگران حکومت ماضی کی منتخب حکومتوں سے بھی زیادہ متحرک ہے۔ دارالحکوت لاہور سے دور کے ہسپتالوں میں تسلسل سے جانا تو ممکن نہیں تھا لیکن لاہور کے ہسپتالوں سے انہیں بہت محبت رہی۔ رات دن کے چھاپوں سے کہیں بہتر فیصلے بھی ہوئے اور کہیں غلطیاں بھی ہوئیں۔ ان کے جانے کے بعد عوامی حلقوں میں بہت سی باتیں ریکارڈ کا حصہ بنیں۔ہائی کورٹ میں مختلف کیسوں کے دوران انکے نہر لاہور کے انڈر پاسوں میں روشنیوں کے منصوبوں کوزیر بحث لایا گیا اور ان پر بہت زیادہ سرمایہ خرچ کرنے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی طرح شہر میں جوہر ٹائون میں بعض بے مقصد فلائی اوور تو بنا دئے گئے لیکن نہر لاہور کے مغل پورہ انڈر پاس سے رنگ روڈ تک کے علاقے کی ٹریفک کے بدترین سسٹم کو ٹھیک کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا گیا۔ نہر کے اس حصے میں ماضی میں مغل پور ہ انڈر پاس سے لے کررنگ روڈ تک نہر پر آبادیوں کی ضرورت کے تحت پل بنائے گئے تھے ان میں لال پل اور نیا پل تو لاکھوں کی آبادی کے اس علاقے میں ایک تاریخی حیئیت اختیار کر گئے تھے۔ پھر سگنل فری کیلئے ان تمام پلوں کو گرا کر آبادیوں کی ضرورت کو نظر انداز کرتے ہوئے چار پانچ پلوں کی بجائے لائق فائق انجینئروں نے طویل فاصلے کے دو یو ٹرن بنا دئے۔ بس با اثرنجی کالجوں اکیڈیوں کیلئے موٹر سائیکل پل بنا دئے گئے۔ وہ دن اور آج کا دن اس علاقے کی خلق خدا ایک عذاب میں مبتلا ہے۔ نہر کے دونوں طرف کی گنجان آبادیوں کی ضرورت کے برعکس بنائے گئے یو ٹرنز کو ختم کرنے اور نئے زیادہ یو ٹرنز بنانے کے مسلسل مطالبے کی پرواہ نہیں کی گئی۔ جن کے ذریعے تاجپوررہ ایل ڈی اے سکیم فتح گڑھ راج گڑھ تاج باغ عامر ٹائون اور ملحقہ درجنوں آبادیوں کے شہری سکون کے ساتھ اپنے گھروں کو آ جاسکتے۔ برسوں سے خلق خدا غلط طریقے سے سروس روڈ کے استعمال کے باعث حادثات کا سامنا کر رہی ہے مگر نگران دور بھی عوام کی سنے بغیر گزر گیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ عوام کے مسائل اور مطالبات سے زیادہ کسی اور بات کو ترجیع دیتے رہے۔لاہور میں ان کے جلد بازی کے فیصلوں میں سے ایک اور فیصلہ داتا دربار کے ہسپتال کے حوالے سے ہے۔ ایک رات گئے سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی صوبائی کابینہ کے ہمراہ داتا دربار آئی ہسپتال کے اچانک دورہ پر پہنچے۔ ظاہر اس وقت ایم ایس کی ڈیوٹی کا ٹائم تو تھا نہیں۔صرف زچہ بچہ کی رائونڈ دی کلاک سروس ہوتی ہے سو باقی شعبوںکے ڈاکٹروں نے دن کوآنا تھا۔ کہا گیا کہ ایم ایس اور ڈاکٹرز نہیں ہیں حاضری شیٹ منگوائی گئی ،وزیراعلیٰ صاحب نے ہسپتال کے ایم ایس کو عہدے سے ہٹا دیا حاضری رجسٹر سیکرٹری اوقاف کو بھجوا دیا گیا کہ کارروائی کریں۔ صرف یہی نہیں ایک انتظامی حکم بھی دیا۔ سیکرٹری ہیلتھ جو عام طور پر انکے ہمراہ ہوتے تھے کو حکم دیا کہ اس ہسپتال کا انتظام پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اپنے ہاتھ میں لے۔اس کے ساتھ ہی ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا گیا۔جس میں بظاہرداتا دربار ہسپتال میں بہتری کے لئے مجوزہ امور پر پیش رفت کا جائزہ لیتے ہوئے داتا دربار ہسپتال میں منشیات کے عادی افراد کی علاجگاہ بھی قائم کرنے کی تجویز پر غور کیا گیا اورداتا دربار ہسپتال کاانتظام اینٹی نارکوٹک فورس کے سپرد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ بتایا گیا کہ منشیات کے عادی افراد کی علاجگاہ کے لئے داتا دربار ہسپتال میں ابتدائی طور پر 50بیڈز مختص ہوں گے۔شہرکے مرکزی حصے میں واقع داتا دربار ہسپتال کی اپ گریڈیشن کی جائے گی۔بعد میں جب اسے اینٹی نارکوٹک فورس کی تحویل میں دینے کا فیصلہ ہوا تو شہریوں کی طرف سے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر دی گئی تازہ صورت یہ ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے داتا دربار ہسپتال کو اینٹی نارکوٹکس فورس کے حوالے کرنے کیخلاف درخواست پر سماعت بغیر کارروائی غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی ہے ،عدالت نے داتا دربار ہسپتال کو انٹی نارکوٹکس فورس کے حوالے کرنے کا نوٹیفکیشن پہلے ہی معطل کر رکھا ہے ،عدالت نے سیکرٹری صحت، انٹی نارکوٹکس حکام و دیگر کو نوٹس جاری کر رکھے ہیں۔
رٹ میں مطالبہ یہ کیا گیا ہے کہ، عدالت سیکرٹری صحت کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے۔انٹر نیشنل ہیومن رائٹس موومنٹ کے چیئرمین محمد ناصر اقبال سمیت علاقہ بھر کے عوام کی نمائندگی کرنے والوں کا موقف یہ ہے کہ1961ء سے قائم داتا صاحب کے نام سے منسوب یہ ہسپتال اوقاف کی نگرانی میں رہنا چاہئیے۔آخر واپڈا ریلوے اور دوسرے محکمے بھی تو اپنے ہسپتالوں کوچلا رہے ہیں۔ پھر ہر ماہ 200 سے زائد آنکھوں کے اپریشن کے ریکارڈ کے ساتھ داتا دربار ہسپتال آنکھوں کی مثالی علاج گاہ ہے۔ دانتوں کی علاج کے حوالے سے اس کی اچھی شہرت ہے۔ زچہ بچہ کی 24 گھنٹے سروس دستیاب ہے۔ لاہور میں شیخ زید ہسپتال کی انتظامی تبدیلی کی تلخ یادیں اہل لاہورکے دل سے محو نہیں ہوئیں ایسے میں داتا دربار ہسپتال کو کسی اور کے حوالے کرنے کی بجائے اوقاف کی نگرانی میں اور بہتر کیا جا سکتا ہے۔ اسے اینٹی نار کوٹکس فورس یا کسی اور ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کرنے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔اس وقت شعبہ صحت میں سیکرٹری علی جان ایڈیشنل سیکرٹری راجہ منصور سمیت اچھی شہرت کی حامل ٹیم میدان میں ہے۔ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف پنجاب میں کچھ نیا کرنے کی راہ پر گامزن ہیں تو نئے انقلابی فیصلوں میں داتا دربار ہسپتال کے حوالے سے عوامی مطالبے کی تکمیل اور نہر لاہور پر مغلپورہ سے رنگ روڈ پر عوامی ضرورت کے مطابق نئے یو ٹرنز کی تعمیر کو بھی 56 نکات میں شامل کر لیں تو اس کے ثمرات وہ خود دیکھیں گی۔سچ ہے کہ۔۔
دل بدست آور کہ حج اکبر است
از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است