دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تْو
چار دہائیاں ہوتی ہیں اور یادوں کا ایک حسین دریچہ وا ہوتا ہے۔مادرِعلمی گورنمنٹ ہائی سکول چوا خالصہ میں سال 1985 کی میٹرک کی کلاس ہے جب سارے تش نوجوان تھے۔ یہ ایسا وقت ہوتا ہے جب نوجوان اپنی ذہنی اور جسمانی استعداد اور صلاحیتوں کی معراج پر ہوتے ہیں۔ ایک ایسا دور ہوتا ہے جب زندگی بہت آسان دکھائی دیتی ہے ، دْنیا لامتناہی امکانات کی اْمید ہوتی ہے اور اْڑان ایسی کہ ہر شے تہِ بال وپرِ ماست دِکھائی دیتی ہے۔ یہ عمرکا وہ حصہ ہوتا ہے جہاں نہ آغاز کے خدشات ہوتے ہیں اور نہ ہی انجام کی فکر ہوتی ہے۔ جب ہم اپنی میٹرک کی کلاس کے ساتھ جْڑی کہانیوں کو یاد کرتے ہیں تو پرانی مگر تاحال تازہ یادوں کا ایک خوشگوار جھونکا آ کر گذر جاتا ہے اور بھولے بسرے لوگ اپنی معصومیت اور شرارتوں کی وجہ سے یاد آتا شروع ہو جاتے ہیں۔سکول کی عمارت، اینٹوں کی دیواریں ، راہداریوں کا شور شرابہ اور اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ اور اَن گنت یادیں آج بھی گذرے ہوئے اچھے وقت کی گواہ ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر پیش آنے والے واقعات ، کھیل کود، پڑھائی ، دوستیاں اور شرارتیں چار دہائیاں گذر جانے کے باوجود آج بھی سب کے ذہنوں میں تازہ ہیں اور زندگی کے کینوس پر اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ نمایاں ہیں۔اِس بات کا احساس مجھے اور چند کلاس فیلوز کو چند ہفتے قبل ہوا جب ہم نے جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے کلاس فیلوز پر مشتمل ایک واٹس ایپ گروپ تشکیل دیا۔ چند دِنوں میں اکثر کلاس فیلوز دْنیا بھر سے اِس واٹس ایپ گروپ میں شامل ہوئے اور اب یو ں محسوس ہوتا ہے کہ 1985 کا وہ دور واپس آگیا ہے۔خوش گپیوں کے دور چلتے ہیں اور کسی خوشگوار یا نا خوشگوار واقعے کے حوالے سے ایک دوسرے کو پہچاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔
چوآ خالصہ ایک قصبہ ہے۔ اْس وقت چوآ خالصہ اور اْس کے اِرد گرد کے متعدد دیہاتوں کے لیے ایک بوائیز اور ایک گرلز ہائی سکول تھا۔ ہم لوگ آندھی ہو یاطوفان، گرمی ہو یا سردی صبح سویرے دْور دراز سے میلوں کا سفر طے کر کے سکول پہنچتے تھے۔ گورنمنٹ ہائی سکول چوآخالصہ کا شمار 80 کی دہائی میں علاقے کے بہترین سکولوں میں ہوا کرتا تھا۔ اکثر علاقے میں امتیازی حیثیت سے امتحان پاس کرنے والے طلباء کا تعلق ہمارے سکول سے ہوتا تھا۔ ہمارے ہیڈ ماسٹر چوہدری اسلم صاحب کا شمار ضلع راولپنڈی کے نامی گرامی ماہرِ تعلیم میں ہوتا تھا۔ چوہدری صاحب انتہائی نفیس شخصیت کے مالک تھے اورتمام اساتذہ اور طلباء اْن کو انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔صبح کا آغاز سکول کی گھنٹی کی مانوس آواز سے ہوتا تھاجو ایک اور دِن کے آغاز کا اشارہ دیتی تھی۔ ہم تمام اساتذہ کے ہمراہ سکول کے کرکٹ گراونڈ میں جمع ہوتے، قومی ترانہ پورے جوش و خروش سے گاتے اور اپنے اپنے کلاس روم میں چلے جاتے۔ ہمارے اساتذہ، اپنے منفرد تدریسی انداز کے ساتھ ہماری تعلیمی بنیادوں کے معمار تھے۔ یہ وہ حقیقی معتبر لوگ تھے جن کا کل حاصل بچوں کی امتیازی پوزیشنز ہوتی تھیںاور فخر ہوتا کہ ہمارے سکول کا نتیجہ سو فیصد ہے۔تمام اساتذہ کا منفرد انداز تھا۔ سلطان محمود صاحب نے اپنے سخت گیر رویے اور تیز نگاہوں سے ریاضی کی کلاس پر آہنی مٹھی سے حکومت کیا کرتے تھے۔ اْن کی شخصیت کا ایسا رْعب و دبدبہ تھا کہ اگر وہ کسی ایک کلاس میں ہوتے تو اِرد گرد کی تمام کلاسوں میں بغیر اْستاد کے بھی ایسی خاموشی ہوتی جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ سلطان محمود صاحب بہت محنتی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے مالامال اْستاد تھے۔ اْن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اْنہوں نے اپنی ساری ملازمت کے دوران ایک دِن بھی چھٹی نہیں کی اور وقت کے ایسے پابند تھے کہ اْن کے معمولات سیہم وقت کا اندازہ لگایا کرتے تھے۔ انگریزی کے اْستاد حبیب اللہ صاحب بھی انتہائی قابل اْستاد تھے اور بہت دِلچسپ گفتگو کیا کرتے تھے۔ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمارے اساتذہ میں مفتی محمود صاحب، ظفر اقبال صاحب ،راجہ محمود الحسن صاحب، صادق بھٹی صاحب اور منظور علی صاحب جیسے زیرک اور محنتی اساتذہ شامل تھے۔ سلطان محمود صاحب کی طرح منظور علی صاحب کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اْنھوں نے بھی اپنی ساری ملازمت کے دوران کبھی سکول سے ناغہ نہیں کیا۔ میں نے اپنے طویل تعلیمی کیریئر میں اِن جیسے محنت ،شفقت اور اخلاص کے حامل اساتذہ بہت کم دیکھے کیونکہ ہم اْس وقت تک اْس دور میں تھے جب تعلیم نے ابھی تک کاروبار کا رْوپ اختیار نہیں کیا تھا اور علم ایک اعلی و ارفعی وصف سمجھا جاتا تھا اور صاحب ِ علم عزت وتکریم کے لائق سمجھا جاتا تھا۔
ہماری کلاس میں ہر طرح کے لوگ شامل تھے یایوں کہہ سکتے ہیں کہ کلاس میں طلباء کے مختلف درجات تھے۔ یعنی ایک ہی کلاس میں کچھ لائق اور کتابی کیڑے تھے، کچھ نالائق تھے، کچھ بہت محنتی تھے، کچھ کھلاڑی تھے، چند شرارتی تھے، کچھ شریف تھے اور کچھ ہر گز شریفوں کے زمرے میں نہیں آتے تھے۔ یہ درجات بھی اساتذہ اور کلاس فیلوز کے مشاہدات کی روشنی میںطے ہوتے تھے اور ضرورت پڑنے پر القابات کی صورت عطا بھی ہو جاتے تھے۔ سکول میں دو سال کا عرصہ بھی ایسے ہی گذر گیا جیسے اب چالیس سال گذر گئے ہیں۔ سکول سے فراغت ہوئی تو سب اپنے اپنے اگلے مقاصد کے حصول کے لیے موتیوں کی طرح بکھر گئے۔ کچھ کالج اور یونیورسٹی سے ہوتے ہوئے عملی زندگی کی بھول بھلیوں میں کھو گئے۔ جوانی کی دہلیز پر کھڑے روشن چہرے، اْمید سے بھرپور اْمنگیں رکھنے والے نوجوان، شوخی و شرارت سے بھرپور لوگ زندگی کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کرتے کرتے اْدھیڑ عمر ی تک پہنچ گئے اور اب دوبارہ چھوٹی چھوٹی شرارتوں، تلخیوں، لڑائی جھگڑوں کی کہانیوں کو سیاق و سباق کے ساتھ یاد کرتے ہیں اور یہ ایسی کہانیاں ہیں جن کا سیاق و سباق صرف وہی سمجھ سکتے ہیں۔یہ ایسی کہانیاں ہیں جن میں پرانییادوں کے تذکرے ہیں ، دیرینہ دوستی کے بندھن ہیں اور گذری جوانی کی بازگشت ہے۔
چار دہائیاں ہوتی ہیں۔ یادوں کا حسین دریچہ وا ہوا تو معلوم ہوا کہ وقت بہت جلدی گذر گیا ہے۔دہائیوں کی مسافت میں سب کچھ بدل گیا ہے۔ یاس کا پہلو یہ کہ اِس دریچے سے ماضی میںجھانک کر جو ہم دیکھ سکتے ہیں وہ ہماری آنے والی نسل نہیں دیکھ سکتی کیونکہ ہر دور میں لوگوں کی اپنی سوچ ہوتی ہے اور دیکھنے کا اپنا زاویہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں اقدار تشکیل پاتی ہیں۔ چار دہائیاں ہوتی ہیں۔ یادوں کا حسین دریچہ وا ہوا تو معلوم ہوا کہ زندگی کبھی دوبارہ ایسی نہیں ہو سکتی جیسی اَسی کی دہائی میں ہوا کرتی تھی۔