حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بطور حکمران
سید نا عمرؓ کا شمار خلفائے راشدین میں ہوتا ہے۔نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ تم میری سنت کواور ہدایت یافتہ خلفائے راشد ین کے طریقہ کو اختیار کرنا۔جب اللہ کے رسول موجود تھے توسیدنا عمررضی اللہ عنہ نے ان کی معاونت کا حق ادا کیا اور رسول کریم ﷺ کی زبان اقدس سے فضیلت اور بشارت پائی۔ جب سیدنا ابوبکرؓ کی خلافت آئی توان سے رفاقت کا نمونہ بنے اورجب خلافت کا بوجھ خودسیدنا عمرؓ کے اپنے کندھو ں پر آن پڑا تو بعد میں آنے والے تمام حکمرانوں کے لئے ایسے مشعل راہ بنے کہ آج کے جدید دور میں بھی کوئی حاکم آپؓ کے دور میں جاری ہونے والے عوامی فلاح و بہبود کے اقدامات سے استفادہ کئے بغیر فلاحی ریاست قائم نہیں کرسکتا۔مغربی ملکوں میں ’عمر‘ نام سے قوانین بنے ہوئے ہیں۔سید ناعمرؓ ہر وقت اپنی قوم کی فکر میں رہتے، خلافت کے ابتداء میں جب اقتصادی حالت بہترنہیں تھی تو آپؓ نے خودپرلازم کیا کہ اس وقت تک گھی استعمال نہیں کروں گا جب تک قحط سالی ختم نہیں ہو جا تی۔سیدنافاروق اعظمؓ کے دور میں عظیم فتوحات کی بدولت22لاکھ مربع میل تک اسلامی ریاست کی حدود پھیل گئیں اور اس وقت کی دو سپر طاقتوں روم اور فارس کو عبرت ناک شکست دی۔
اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی کئی آیا ت حضرت عمرؓ کی موافقت میں نازل فرمائیں۔ حضر ت عمرؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عر ض کر تے ہیں اللہ کے رسول اگر ہم مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالیں تو کتنا اچھا ہوتو اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کر دی کہ مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالو۔ایک موقعہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عمرؓ عرض کرتے ہیں اے اللہ کے رسول آپ کے پاس نیک لوگ بھی آتے ہیں فاسق و فاجر بھی آتے ہیں اس لئے آپ مومنو ں کی ماؤں (اپنی بیویوں)کو پردے کا حکم دے دیں تو اللہ تعالیٰ نے پردے کی آیت نازل کر دی۔
حضرت عمر فاروق، جن کا اصل نام عمر بن خطاب تھا، نے 634 عیسوی سے 644 عیسوی تک 10سال خلافت کے منصب پر فائز رہے۔
خلیفہ کی حیثیت سے حضرت عمررضی اللہ عنہ اور آپؐ کے فرمان ’’قوم کا سردار ان کا خادم ہوتاہے‘‘ کے مصداق ٹھہرے۔سیدنا عمربن خطابؓ نے سلطنت اسلامیہ کو انتظامی طورپر مختلف صوبوں ،مکہ، شام،فلسطین،فارس، خراسان، آذربائیجان، کوفہ، بصرہ اور جزیرہ میں تقسیم کیااوران میں گورنرمتعین کیے۔ آپؓ کے دور میں گورنرسے حلف لیا جاتا کہ وہ ترکی گھوڑا استعمال نہیں کریں گے،دربان نہیں رکھیں گے، اہل حاجت کے لئے دروازہ ہمیشہ کھلارکھیں گے،باریک قیمتی لباس زیب تن نہیں کریں گے-جب کوئی کسی علاقے کا ذمہ دار بنا کر بھیجا جاتا تو وہ اپنے اثاثے ظاہر کرتا۔ گورنر کے مال واسباب کی فہرست تیار کی جاتی اور دوران خلافت ان میں اضافہ کی صورت میں محاسبہ کیاجاتا۔آپؓ کے دور نئے شہروں کا قیام،،مہمان خانوں کا قیام،نہروں کی تقسیم،پولیس چوکیاں اور سزائوں کے لیے جیلیں، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر،کعبہ کی توسیع کے پیش نظر بہت کام ہوا۔ آپؓ کے دور میں 4000 مساجد کی تعمیر سمیت دیگر تعمیرات شامل تھیں۔
حضرت عمر فاروق کے دور میں نظام تعلیم ایک منظم اور متوازن طریقے سے چلایا گیا جو اس دور کی ترقی اور استحکام کا ایک اہم حصہ تھا۔ حضرت عمر فاروق نے تعلیم کو مسلمانوں کے لیے بنیادی ضرورت کے طور پر تسلیم کیا۔ انہوں نے قرآن و سنت کی تعلیم کو فروغ دینے پر زور دیا اور اس مقصد کے لیے مختلف شہروں میں مدارس قائم کیے۔ ان مدارس میں نہ صرف دینی تعلیم دی جاتی تھی بلکہ عربی زبان، ریاضی، اور دیگر علوم بھی سکھائے جاتے تھے۔حضرت عمر فاروق نے اساتذہ اور علماء کی تقرری پر خاص توجہ دی۔ اس مقصد کے لیے ایسے افراد کا انتخاب کیا جو نہ صرف دینی علوم میں مہارت رکھتے تھے بلکہ اخلاقی طور پر بھی اعلیٰ معیار کے حامل تھے۔ بیت المال سے اساتذہ اور طلباء کے وظائف شروع کروائے تاکہ کسی مالی پریشانی کے تعلیم کا سلسلہ چلتا رہے ۔ حضرت عمر فاروق نے مختلف شہروں میں علمی مراکز اور کتب خانوں کی تعمیر کی۔ ان مراکز میں نہ صرف کتابیں محفوظ کی جاتی تھیں بلکہ علمی بحث و مباحثے اور تحقیق کا عمل بھی جاری رہتا تھا۔ یہ حکم دیا کہ ہر شخص کو قرآن کی تعلیم دی جائے اور اس کی تفہیم کرائی جائے۔حضرت عمر بن خطابؓ کے دور خلافت میں عدلیہ کی تنظیم اور قاضیوں کی اہلیت و قابلیت پر خاص توجہ دی گئی تھی۔ قاضیوں کی تقرری میں حضرت عمرؓ نے نہایت عزم اور احتیاط سے کام لیا کرتے تھے تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔ قاضی کی سب سے اہم خصوصیت اس کی دیانتداری اور تقویٰ تھی۔ حضرت عمرؓ کے نزدیک ایک قاضی کو سب سے پہلے خود نیک ہونا چاہیے ۔قاضی کی دیانتداری پر کوئی سوال نہ ہو، اور وہ اللہ کے خوف سے کام کرے۔ قاضی کی علمی قابلیت بھی بہت اہم تھی۔ حضرت عمرؓ نے ان لوگوں کو قاضی مقرر کیا جو دینی اور دنیاوی علوم میں ماہر تھے۔ ان کا فہم اور علم شریعت کے مسائل میں گہرا ہوتا تاکہ وہ صحیح فیصلے کر سکیں۔حضرت عمرؓ نے قاضیوں کے انتخاب میں تجربہ اور فہم کو بھی مدنظر رکھا۔ انہوں نے ایسے افراد کو قاضی مقرر کیا جو زندگی کے مختلف شعبوں کا تجربہ رکھتے تھے اور انسانی نفسیات اور معاملات کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔جب مسلم سلطنت کا دائرہ وسیع ہونے لگا توآپؓ نے قاضیوں کو وقتاً فوقتاً مسائل پر غور و فکر اور مشاورت کی ہدایت دی تاکہ وہ نئے اور پیچیدہ مسائل کو بہتر طریقے سے حل کر سکیں۔حضرت عمرؓ کے دورمیں قاضی کو خلیفہ یا گورنرز کی مداخلت کے بغیر آزادانہ طور پر فیصلے کرنے کی اختیار حاصل تھا۔آج میرے ملک میں صدر وزیر اعظم اعلی عدلیہ کے ججز اور طاقتور محکموں کے ملازموں نے اپنے لیے بہت سی مراعات اور استشنا حاصل کررکھے ہیں لیکن مسلم تاریخ کے کامیاب ترین حکمران مانے جانے والے عمرؓ کے دور میں خلیفہ کو کسی قسم کا کوئی استشنا حاصل نہ تھا بلکہ قاضی کے بلانے پر خلیفہ وقت حضرت عمرؓ نہ صرف عدالت میں پیش ہوئے بلکہ قاضی کے فیصلوں کو تسلیم کیا۔