• news

بھٹو کیس میں شفاف ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے : سپریم کورٹ یفصیلی رائے

اسلام آباد(خصوصی رپورٹر)سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس پر 48 صفحات پر مشتمل تفصیلی رائے جاری کردی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھٹو کیس میں شفاف ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے، ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف کوئی براہ راست شواہد موجود نہیں تھے۔ بھٹو معصوم تھے جنہیں غیر آئینی عدالتوں نے سزائے موت دی جبکہ سزا کیلئے شواہد بھی ناکافی تھے۔چیف جسٹس  قاضی فائز عیسی نے 48 صفحات پر مشتمل جاری کی جائے والی رائے میں لکھا ہے کہ ریفرنس کے حوالے سے جسٹس سردار طارق مسعود ، جسٹس منصور علی شاہ اضافی نوٹ دیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف جب کیس چلایا گیا اس وقت عدالتوں کی آئینی حیثیت ہی نہیں تھی، جب کیس چلایا گیا اس وقت ملک میں مارشل لا تھا اور بنیادی حقوق معطل تھے جبکہ اس وقت کی عدالتیں بھی مارشل لا کی قیدی تھیں۔تحریری رائے میں لکھا گیا ہے کہ آمر کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے جج کی عدالتیں پھر عوام کی عدالتیں نہیں رہتیں، ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کا براہ راست فاعدہ جنرل ضیاالحق کو ہوا، اگر ذوالفقار بھٹو کو رہا کردیا جاتا تو وہ ضیاالحق کیخلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلا سکتے تھے۔ گیارہ سال تک زوالفقار علی بھٹو ریفرنس سماعت کیلئے مقرر ہی نہ ہوسکا، ریفرنس پر ابتدائی سماعتیں کرنے والے تمام ججز ریٹائرڈ ہو گئے ۔ بھٹو کیخلاف دفعہ 302 لگانے کے ڈائریکٹ شواہد نہیں تھے۔سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ بھٹو پھانسی صدارتی ریفرنس ایپل تھی اور نہ ہی نظر ثانی کی درخواست، جس کے تحت سزا کو کالعدم قرار دیا جاسکے، سپریم کورٹ سے نظرثانی خارج ہونے کے بعد بھٹو کی سزا کا فیصلہ حتمی ہو چکا تھا۔ایف آئی اے نے بھٹو کیس کی فائل ملنے سے پہلے ہی تحقیقات کا آغاز کر دیا تھا، پولیس تفتیش مکمل کر چکی ہو تو ایف آئی اے کو فائل دوبارہ کھولنے کا اختیار نہیں، بھٹو کیس کی تفتیش دوبارہ کرنے کا کوئی عدالتی حکم موجود نہیں تھا جبکہ ہائی کورٹ نے خود ٹرائل کرکے قانون کی کئی شقوں کو غیرموثر کر دیا تھا۔ عدالت نے لکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی انہوں نے کی جن کی ذمہ داری ان کا تحفظ تھا،بھٹو کیخلاف چلائے گئے کیس میں غیر شفافیت، غیر قانونی اور غیر آئینی خامیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں، قتل کا الزام ایف ایس ایف نامی فورس کے ذریعے عائد کیا گیا تھا، وقوعہ میں استعمال گولی کا خول ایف ایس ایف کے ہتھیاروں سے مطابقت نہیں رکھتا تھا، عدالتوں نے بھٹو کی پارلیمنٹ میں تقاریر کو بھی فیصلوں میں جواز بنایا، پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر کو کسی رکن کیخلاف عدالت میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

ای پیپر-دی نیشن