ایران، برطانیہ اور بھارت میں تبدیلی پر ہمارے"ذہن سازوں" کی توقعات
برطانیہ کے بعد ایران کے صدارتی انتخابات بھی ہوگئے تو ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر چھائے ’’ذہن سازوں‘‘ کا ایک گروہ نہایت حسرت سے پاکستانیوں کو یاد دلانا شروع ہوگیا کہ حال ہی میں برطانیہ اور ایران کے علاوہ بھارت بھی انتخابی عمل سے گزرا ہے۔ ان تینوں ملکوں میں بقول ’’ذہن سازوں‘‘ کے ’’قدامت پرست اور آمرانہ مزاج‘‘ کی جماعتوں اور افراد کو شکست ہوئی۔ وہاں کے عوام ’’جاگ اْٹھے‘‘ اور ’’بہتر لوگ‘‘ اقتدار میں لے آئے۔ پاکستان میں لیکن بار ہا انتخابات کے باوجود ’’تبدیلی‘‘ نہیں آتی۔ انتخاب ہوبھی جائیں تو ان کے ’’حقیقی نتائج‘‘ حکمران اشرافیہ کھلے دل سے قبول نہیں کرتی۔
تین ملکوں کے انتخابی نتائج کے ذکر سے خود کی ملامت کرتے ’’ذہن سازوں‘‘ کے پیغامات کو توجہ سے پڑھا تو حیرت ہوئی۔ ایران کا سیاسی ڈھانچہ اور انتخابی عمل برطانیہ اور بھارت کے مقابلے میں قطعاََ مختلف ہے۔ ایران ایک کٹر نظریاتی مملکت ہے جہاں منتخب اداروں کے متوازی روحانی سربراہ کی قیادت میں قائم ہواطاقت ور ترین سیاسی ڈھانچہ بھی ہے۔اس کے ہوتے ہوئے منتخب صدر اپنے تئیں ایران کو ’’انقلابی‘‘ انداز میں تبدیل کرنے کے قابل ہی نہیں۔
نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت کا آغاز ہونے کے چند ماہ بعد تہران میں اسلامی ممالک کے سربراہان کی کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ میں اس کی تیاریوں کے دوران ہی تہران پہنچ گیا تھا اور وزیر اعظم کے ہمراہ گئے صحافیوں میں شامل نہیں تھا۔ میرے وہاں پہنچنے کے روز ایران نے ایک فٹ بال میچ جیتا تو نوجوان بچوں اور بچیوں کی بہت بڑی تعداد فرطِ جذبات سے سڑکوں پر نکل آئی۔ کئی اہم شاہراہوں پر وہ ٹولیوں کی صورت رقص میں مصروف رہے۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی اجتماعی شادمانی نے جو مناظر دکھائے چند اہم عالمی اخبارات کے نمائندوں نے انہیں ’’تبدیلی‘‘ کی علامت ٹھہرایا۔ طے کردیا کہ نو منتخب صدر خاتمی اپنی ’’معتدل مزاجی‘‘ کی بدولت جلد ہی ایران کو امریکہ اور یورپ کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی راہ پر لگادیں گے۔
’’معتدل مزاج‘‘ صدر روحانی سے بھی ایسی ہی امیدیں باندھی گئی تھیں۔ ان ہی کے دور میں طویل مذاکرات کے بعد امریکہ نے روس کی بھرپور معاونت سے ایران کو ایک اہم معاہدے پر دستخط کرنے کو رضا مند کیا۔ اس معاہدے کی بدولت ایران نے وعدہ کیا کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو جنگی ہتھیاروں کے لئے استعمال نہیں کرے گا۔ مذکورہ معاہدہ باراک اوبامہ کی ’’تاریخ ساز‘‘کامیابی بھی قرار پایا۔ اس کی جگہ وائٹ ہائوس پہنچے ٹرمپ نے مگر اقتدار سنبھالتے ہی مذکورہ معاہدے کو یک طرفہ طورپر منسوخ کردیا۔ ایران اور مغربی دنیا کے مابین تنائو اب انتہا کو پہنچ چکا ہے اور نئے ’’معتدل مزاج‘‘ صدر کا انتخاب اس تناظر میں کسی مثبت پیش قدمی کی امید نہیں دلاتا۔ ہمارے ہاں تاہم فقط ’’معتدل مزاج‘‘ کے لیبل نے ’’ذہن سازوں‘‘کو اپنی خواہشات کی کہانیاں گھڑنے کو اکسانا شروع کردیا ہے۔
بھارت میں نر یندر مودی ’’اب کی بار-چار سوپار‘‘ حاصل نہیں کرپایا۔اس کے باوجود مسلسل تیسری بار وزارت عظمیٰ کے منصب کے حصول میں کامیاب رہا۔ وزارت داخلہ اور خارجہ کے مناصب پر بھی وہی لوگ فائز ہیں جو گزشتہ دو ادوار سے اس کے قریب ترین تصور ہوتے ہیں۔ اپنی حکومت کے قیام کے لئے اتحادی جماعتوں کی محتاجی کے باوجود وہ ’’ہندوتوا‘‘ کے بنیادی اصولوں پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو اسے قابو میں رکھنے کے لئے مزید کئی سال کسی جاندار سیاسی حکمت عملی کے ذریعے عوام کو جگائے رکھنا ہوگا۔
’’تبدیلی‘‘ کا ذکر کریں تو حقیقی معنوں میں وہ برطانیہ میں آئی ہے جہاں 14برس تک برسراقتدار رہنے کے بعد وہاں کی قدامت پرست جماعت کو بدترین شکست کاسامنا کرنا پڑا ہے۔ سوال اگرچہ یہ بھی اْٹھتا ہے کہ قدامت پرست جماعت کی ذلت آمیز شکست یقینی بنانے میں لیبر پارٹی کا کونسا ’’حربہ‘‘ کارگرثابت ہوا ہے۔اس تناظر میں غور کیا تو کچھ بھی ڈھونڈ نہیں پایا۔ قدامت پرست جماعت کی رعونت اور ناقص پالیسیاں ہی اس کے لئے ’’خودکش‘‘ ثابت ہوئیں۔ لیبر پارٹی نے اسے دیوار سے نہیں لگایا۔
قدامت پرست جماعت کو ’’نیا‘‘ بنانے کے لئے بورس جانسن نے روایتی کے مقابلے میں سوشل میڈیا کو جارحانہ انداز میں استعمال کیا تھا۔ برطانیہ کی سفید فام اکثریت کو یہ سوچنے کو مجبور کیا کہ یورپی یونین میں شامل ہوکر ان کا ملک اپنی ’’تاریخی پہچان‘‘ اور منفرد حیثیت کھوچکا ہے۔ اس کی جارجانہ مہم کے نتیجے میں اسی کی جماعت کا سابق وزیر اعظم یورپی یونین میں شامل رہنے یا نہ رہنے کے سوال پر ریفرنڈم کو مجبور ہوا۔ ریفرنڈم ہوا تو برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہوگیا۔ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد برطانیہ کو اس کی تاریخی ’’عظمت وپہچان‘‘ لوٹانے کے وعدے کے ساتھ بورس جانسن وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوا تو ڈھنگ کی ایک پالیسی بھی مرتب نہ کرپایا۔ ’’تبدیلی‘‘ کے نام پر آئی حکومت کرونا کی وباء کے دنوں میں بھی شغل میلے والی پارٹیوں میں مصروف رہی۔ بورس کا غیر ذمہ دارانہ رویہ اس کے زوال کا باعث ہوا تو اس کی جگہ قدامت پرست پارٹی ہی سے آئے دومزید وزیر اعظم بھی برطانوی عوام کو امید نہ دلاپائے۔ بالآخر قبل از وقت انتخابات کروانے کو مجبور ہوئے اور قدامت پرست جماعت کی خودکش پالیسیوں نے جو خلا پیدا کیا اسے لیبر پارٹی نے بآسانی پرکردیا ہے۔
سنگین ترین معاشی بحران کے جس مقام پر برطانیہ اب پہنچ چکا ہے اس سے نکلنے کیلئے لیبرپارٹی کو بے تحاشہ نئے اور تخلیقی اقدامات لینا ہوں گے۔وہ اس میں ناکام رہی تو اس کا انجام بھی قدامت پرست پارٹی جیسا ہوگا۔ برطانیہ کے تناظر میں اہم ترین حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ وہاں کے عوام قدامت پرست جماعت کی مسلسل حماقتوں کے باوجود جمہوری عمل سے بددل نہیں ہوئے۔اسے 14طویل برسوں تک ’’گڈگورننس‘‘فراہم کرنے کا موقعہ دیا۔ وہ مسلسل ناکام ہوتی رہی تو لیبر پارٹی رات کے اندھیروں میں غیر پارلیمانی قوتوں کے ساتھ رابطوں کے ذریعے قدامت پرست جماعت کے بجائے خود کو محلاتی سازش کے ذریعے اقتدار میں آنے کے راستے نہیں ڈھونڈتی رہی۔ محلاتی سازشوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے لیبر پارٹی نے اپنے کارکنوں کو مسلسل متحرک رکھا۔ جماعت کی نچلی سطحوں سے بھرپور مشاورت کے ذریعے ایسی پالیسیاں ڈھونڈنے کی کوشش ہوئی جو لیبر پارٹی کو اقتدار میں آنے کے بعد مہنگائی کے عذاب کا مداوا فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکیں۔
دیگر ممالک میں عوام کی اجتماعی قوت کی بدولت قدامت پرست اور آمرانہ مزاج کی حامل جماعتوں اور افراد کی شکست سے سوشل میڈیا پر چھائے ہمارے ’’ذہن سازوں‘‘ کو جو سبق اخذ کرنا چاہیے تھے وہ انہیں یکسرنظرانداز کرگئے ہیں۔پاکستانیوں کو محض اپنی اجتماعی ملامت ہی میں مصروف رکھا جارہا ہے۔