• news

غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے 9 ماہ اور محرّم میں بپا کربلا

غزہ میں ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے 9 ماہ مکمل ہو گئے ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق، ماہ محرم کے آغاز ہی میں اسرائیل کے تازہ حملوں سے 24 گھنٹوں میں مزید 55 فلسطینی شہید ہو گئے۔ اقوامِ متحدہ کے زیراہتمام سکول پر بھی اسرائیل نے بمباری کی جس سے 16 طلبہ شہید ہوئے اور 50 زخمی ہو گئے۔ عینی شاہد سماہ ابو امشا نے بتایا کہ قرآن پاک پڑھتے بچے نشانہ بنے۔ ادھر، لبنان کے شہر بعلبک میں کار پر ڈرون حملے میں حزب اللہ کے فوجی عہدیدار میثم العطار شہید ہوگئے۔ اسرائیل کے ایک عہدیدار نے کہا کہ جنگ بندی معاہدے کے حوالے سے پرامید ہیں۔ فارن پریس ایسوسی ایشن نے اسرائیل کے بین الاقوامی میڈیا کے خلاف اقدام پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ایسوسی ایشن کی طرف سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے 9 ماہ کی تباہ کن غزہ جنگ میں غیر ملکی میڈیا کو رسائی نہیں دی۔
7 اکتوبر 2023ءسے جاری جارحیت کے دوران اب تک 38153 فلسطینی شہید جبکہ 87 ہزار 828 زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت سے 9 ماہ کے دوران ہونے والے جانی نقصان کے حوالے سے اعداد و شمار غزہ کے میڈیا نے جاری کیے ہیں۔ سرکاری میڈیا آفس کے مطابق، شہید اور زخمی ہونے والوں کے علاوہ 10 ہزار افراد لاپتا ہیں۔ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ اکتوبر 2023ءسے اب تک غزہ میں تقریباً 16 ہزار بچے شہید ہوچکے ہیں جن میں سے 34 بچے خوراک کی قلت کے باعث شہید ہوئے۔ 17 ہزار بچے ایسے ہیں جن کے دونوں والدین یا ان میں سے کوئی ایک شہید ہو چکا ہے۔ شہید ہونے والوں میں 10 ہزار 637 خواتین بھی شامل ہیں۔
اسرائیل کی غاصب فوج وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے کہنے پر جو کچھ کررہی ہے اس کے خلاف اسرائیل کے اندر بھی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ تل ابیب میں اسرائیلی حکومت کے خلاف بڑا مظاہرہ کیا گیا جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے اور مظاہرین کی جانب سے جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا گیا۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق، مظاہرین نے بعض مقامات پر آگ لگا کر سڑک بند کر دی جبکہ پولیس نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہوئے متعدد مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔ دوسری جانب، اسرائیل، حماس جنگ کے 9 ماہ مکمل ہونے پر اسرائیل میں آج سے ایک ہفتے کے لیے حکومت مخالف احتجاج کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ نیتن یاہو حکومت مخالف قوتوں نے اس احتجاج کو ’مزاحمت کا ہفتہ‘ کا نام دیا ہے۔ ان مظاہروں کے دوران اسرائیل کی بڑی شاہراہوں کو بند کر دیا جائے گا اور ساتھ ہی تل ابیب میں موجود ملٹری ہیڈکواٹرز کے سامنے بھی احتجاج کیا جائے گا۔ وزراءکے گھروں کے سامنے دھرنے دیے گئے۔ شرکاءنے ’مکمل ناکامی‘ کے نعرے بھی لگائے۔
ادھر، نومنتخب برطانوی وزیراعظم سرکیئر سٹارمر نے اسرائیلی ہم منصب کو ٹیلی فون کیا۔ برطانوی وزیراعظم نے نیتن یاہو سے غزہ اور لبنان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ برطانوی وزیراعظم نے کہا کہ اسرائیل کی شمالی سرحد کی صورتحال باعث تشویش ہے۔ یہ بہت اہم ہے کہ تمام فریقین احتیاط سے کام لیں۔ نومنتخب برطانوی وزیراعظم نے فلسطینی صدر محمود عباس کو بھی ٹیلی فون کیا۔ برطانوی وزیراعظم نے کہاکہ امن عمل کا راستہ فلسطینیوں کا ناقابل تردید حق ہے۔برطانیہ کے نئے وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے زور دے کر کہا ہے کہ ان کا ملک مشرق وسطی میں جنگ کے حوالے سے متوازن موقف اختیار کرنا چاہتا ہے اور جنگ بندی اور حماس کے ہاں قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے سفارتی کوششیں بروئے کار لائے گا۔ لڑائی بند ہونی چاہیے اورغزہ میں امداد داخل ہونی چاہیے۔ میں جنگ بندی کو یقینی بنانے کے لیے تمام سفارتی کوششوں کو بروئے کار لاﺅں گا۔
برطانیہ اور امریکا سمیت مغربی ممالک کی طرف سے ایسے بیانات اپنے ممالک کے اندر اور دوسرے ممالک میں موجود ان عناصر کو ٹھنڈا کرنے کے لیے دیے جاتے ہیں جن کے جذبات اسرائیل کی مسلسل جارحیت اور اس کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں ہونے والی بچوں اور خواتین کی شہادتوں کی وجہ سے بھڑکے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غزہ میں جو ظلم و ستم غاصب صہیونی ریاست کی طرف سے ڈھایا جارہا ہے وہ سب کچھ مغربی ممالک کے تعاون سے ہی ہورہا ہے اور اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے اسلحے اور سرمایے کی فراہمی بھی مسلسل جاری ہے۔ اگر امریکا اور برطانیہ کو غزہ میں اسرائیلی جارحیت سے متاثر ہونے والی فلسطینیوں کا اتنا ہی احساس ہوتا تو وہ اسلحے اور سرمایے کی فراہمی بند کردیتے۔
اس سلسلے میں مغربی ممالک سے گلہ اس لیے نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان سے اچھے کی امید رکھی ہی نہیں جاسکتی۔ مسلم ممالک جن کو اس حوالے سے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا چاہیے تھا ان کی حالت یہ ہے کہ وہ امریکا اور برطانیہ کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہاں سے کیا حکم ملتا ہے۔ الحادی قوتوں کے الحاق اور اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والوں نے اسے حق و باطل کی جنگ بنا دیا ہے۔ اس وقت مسلم امہ کا بے حسی والا کردار صرف افسوس ناک ہی نہیں بلکہ شرم ناک بھی ہے۔ واقعہ کر بلا سے ملنے والے پیغام کو مد نظر رکھ کر مسلم دنیا کو متحد ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر اب بھی مسلم دنیا نے مصلحتوں کا لبادہ نہ ا تارا تو الحادی قوتوں کے ہاتھوں ایک ایک کر کے اپنی تباہی کے لیے تیار رہیں۔

ای پیپر-دی نیشن