• news

دندان ساز…دندان شکن

جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے اس بات پر شہباز حکومت کو رگیدا ہے کہ وہ اشرافیہ کو مراعات دے رہی ہے اور غریبوں پر ٹیکس در ٹیکس لگا رہی ہے۔ 
اس طرح کی ’’رگیدگی‘‘ خلاف انصاف ہے۔ پہلے آپ معاملے کو سمجھیں اور پوری تصویر دیکھیں، اس کے بعد بیان جاری کریں۔
پوری تصویر یوں ہے کہ شہباز حکومت نے ایلیٹ کلاس کی مراعات میں صرف ڈیڑھ سو فیصد کا معمولی سا اضافہ کیا ہے۔ وہ چاہتے تو ایلیٹ کلاس کیلئے ڈیڑھ ہزار فیصد کا اضافہ مراعات کی مد میں کر سکتے تھے جو انہوں نے محض ’’خدا خوفی‘‘ کے تحت نہیں کیا۔ 
پھر آپ دیکھیں کہ انہوں نے اپنے لئے یعنی وزیر اعظم ہائوس کے اخراجات میں صرف ’’ریکارڈ‘‘ اضافہ کیا۔ حالانکہ وہ بااختیار وزیر اعظم ہیں، چاہتے تو ڈبل ریکارڈ اضافہ بھی کر سکتے تھے لیکن محض خدا خوفی کرتے ہوئے انہوں نے سنگل ریکارڈ پر اکتفا کیا۔
حکومت کی اس بات پر بھی مذمت کی جا رہی ہے کہ اس نے ایوان صدر کی گاڑیوں کیلئے مختص ایک ارب روپے کی رقم کو بڑھا کر /4 ارب روپے کر دیا ہے۔ حالانکہ مہنگائی کے اس دور میں کسی شریف آدمی، جیسے کہ آصف زرداری اشرف الشرفا ہیں، کیلئے 4 ارب کیا معنے رکھتے ہیں۔ 4 ارب سے بنتا ہی کیا ہے۔ شہباز شریف جیسا شریف زرداری شریف کیلئے اب اتنا بھی نہ کرے۔ حد ہو گئی۔ 
شہباز حکومت نے ان فیکٹریوں کیلئے جو کوئی پیداوار نہیں کرتیں، بجلی آدھے سے بھی کم ریٹ کی کر دی ہے۔ مقصد ان بے روزگاروں کی فی سبیل اللہ مدد ہے۔ تاکہ وہ بجلی اِدھر اْدھر پورے نرخوں پر دے کر باقی ماندہ منعفت سے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکیں۔ ایسا کیا تو کیا گناہ کیا؟۔ 
غریبوں کیلئے بجلی انہوں نے تین گنا مہنگی کر دی۔ وہ چاہتے تو دس گنا مہنگی بھی کر سکتے تھے، لیکن یہ خدا خوفی اور خداترسی ہے جس کی وجہ سے وہ ایسا کرنے سے رک جاتے ہیں۔ کم سے کم اس خدا خوفی اور خدا ترسی کی داد تو دیں۔ 
ایک خاتون کا انٹرویو ٹویٹر پر آیا ہے۔ کہتی ہے، بیٹی کیلئے جہیز بنایا تھا، بجلی کے ہر بل پر جہیز کا ایک حصہ بیچنا پڑتا ہے اور اب یہ جہیز ختم ہونے والا ہے۔ بتائیے۔ جہیز ایک سماجی برائی ہے جو شہباز حکومت کے ہاتھوں ختم ہو رہی ہے۔ شہباز کو داد دیں نعیم صاحب، اس طرح کی غیر منصفانہ تنقید کا نشانہ مت بنائیں۔ 
حافظ صاحب نے مہنگائی کو تباہ کن اور برباد کن قرار دیا ہے۔ ان سے عرض ہے کہ مہنگائی کی فکر بے جا ہے۔ جب بھی وقت آئے گا، شہباز شریف اپنے کپڑے بیچ کر مہنگائی کا نام و نشان مٹا دیں گے۔ 
____
جماعت اسلامی نے فوجی آپریشن کی سختی سے مخالفت کی ہے۔ فوجی آپریشن دراصل ان ٹارگیٹڈ کارروائیوں کا نام ہے جو بھارت کی پراکسی اور ملّا ہیبت اللہ کی ’’پاکٹی‘‘ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کیخلاف کی جا رہی ہیں یا کی جانے والی ہیں۔ 
پاکستان کیخلاف بھارتی اور کابلی دہشت گردی کا توڑ کرنا غلط ہے۔؟ 
سراج الحق کے دور میں اگر جماعت اسلامی بھارتی پراکسی پر دل و جان سے فریفتہ تھی تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ نعیم الرحمن صاحب کی شہرت تو ایک پاکستانی کی ہے، ان کے دور میں بھی جماعت ’’بھارت‘‘ کا ساتھ دے گی؟ 
____
پختونخواہ کے ’’وزیراعظم‘‘ گنڈاپور صاحب نے اپنی ہی پارٹی کے سابق رہنما پرویز خٹک کو انتباہ کیا ہے کہ اگر انہوں نے 190 ملین پائونڈ کیس (ملک ریاض فیم) میں عمران کیخلاف جھوٹی گواہی دی تو وہ انہیں اپنے علاقے (پختونخواہ) میں رہنے نہیں دیں گے۔ 
یہ تو عمران کو پھنسانے اور مقدمے میں سزا دلوانے والی بات ہے۔ کیونکہ ’’وزیر اعظم‘‘ بلکہ ’’چیف وزیر اعظم گنڈاپور کے انتباہ کا مطلب یہ نکلا کہ خٹک صاحب جھوٹی نہیں سچی گواہی دیں۔ 
سچی گواہی دینے کا مطلب یہ ہو گا کہ خان کو لمبی قید ہو جائے گی۔ چیف وزیر اعظم صاحب اپنا انتباہ واپس لیں اور ترمیم شدہ انتباہ ان الفاظ میں جاری کریں کہ ’’خٹک صاحب نے سچی‘‘ گواہی دی تو انہیں نہیں چھوڑوں گا، وہ اپنی خیریت نیک مطلوب چاہتے ہیں تو جھوٹی گواہی دیں۔ اس صورت میں خان کی بچت کا کچھ امکان ہو گا۔ 
____
حکومت اس خوش فہمی میں ہے کہ 190 ملین پائونڈ کیس میں اس کے پاس ضرورت سے بھی زیادہ پکے ثبوت اور پکّی گواہیاں موجود ہیں اور خان کو سزا ہونے سے بچانا ممکنات میں سے نہیں۔ 
حکومت کو یہ علم نہیں کہ دارالحکومت ہی میں ایک جگہ ایسی ہے کہ جہاں پہلی پیشی پر سزا اڑ جائے گی، گواہ اپنی گواہیوں سمیت دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ 
____
ملک کے مایہ بے ناز دندان ساز کے صاحبزاد ے نے اطلاع دی ہے کہ ابّا حضور نے اپنی اصلی ذمہ داریاں پھر سے سنبھال لی ہیں اور دانتوں کی دکان دوبارہ کھول کر لوگوں کے دانت نکالنے کا کام دوبارہ شروع کر دیا ہے۔ صاحبزادے نے اپنے ٹویٹ میں ایک تصویر بھی جاری کی ہے جس میں ابّا حضور ہاتھوں میں زبنور پکڑے ایک گاہک کے دانتوں کا کریا کرم کرنے کی تیاری کرتے نظر آ رہے ہیں۔ 
ابّا حضور کیلئے یہی کاروبار بہتر تھا، ملک کے ایک بڑے منصب پر مسلّط کئے جانے کے بعد انہوں نے اس منصب کا جو حال کیا، وہ صاحبزادہ صاحب کے بھی علم میں ہے۔ 
بہرحال، اصلی پیشے کی طرف واپس لوٹ جانے کے باوجود منہ کو جو لت لگی رہی، اس سے باز نہیں آئے۔ ایک تازہ بیان میں انہوں نے اپنے ’’گریٹ خاں‘‘ کیلئے پھر سے رحم کی اپیل داغ دی ہے۔ لیکن صاحبزادہ صاحب کے ابّا حضور یہ بات نہیں جانتے کہ گریٹ خان کا پالا دندان سازوں سے نہیں ، دندان شکنوں سے پڑا ہے۔ وہ کیڑے لگے دانت کو جڑ سے اکھاڑے بغیر نہیں ٹلیں گے۔

ای پیپر-دی نیشن