• news

فیصلہ سیاسی، جو نہیں مانگا وہ بھی مل گیا، مسلم لیگ ن، لاڈلا ازم گڈ ٹو سی یو کی جھلک، پی پی 

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ اپنے سٹاف رپورٹر سے+ نمائندہ خصوصی) وزیر دفاع خواجہ آصف نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کہا ہے کہ اعلیٰ ترین عدلیہ نے آئین کے بجائے سیاسی فیصلہ دیا۔  جس نے ریلیف مانگا ہی نہیں اسے ریلیف دیدیا۔ آئین اور انصاف کے تقاضوں کی جگہ سیاسی تقاضوں کو اہمیت دی۔ آئین اور قانون کی تشریح کے بجائے آئین سازی کا فرض سنبھال لیا۔  وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ریلیف سنی اتحاد کونسل مانگنے گئی تھی لیکن عدالت نے پی ٹی آئی کو دے دیا۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ  حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، ہمارے پاس اب بھی 209 ارکان کی اکثریت ہے۔ آج بھی وہ سینیٹرز جو سپریم کورٹ کے فیصلے سے آزاد ڈکلئیر ہوئے وہ آزاد ہی درج ہیں، آزاد ارکان نے خود لکھ کر دیا کہ وہ آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے اور سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سماعت میں سامنے آیا کہ سنی اتحاد کونسل میں اقلیتیں شامل نہیں ہو سکتیں تو شاید یہ راستہ بنایا گیا، سپریم کورٹ میں کبھی 80 لوگ آکر کھڑے نہیں ہوئے کہ وہ پی ٹی آئی کے ہیں اور سنی اتحاد میں شامل کیوں ہونا پڑا، ان 80 ارکان نے کہا کہ وہ سنی اتحاد کونسل کے ہیں اور وہی ان کی شناخت ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ بات آئینی تشریح سے آگے نکل گئی ہے، آئین کے آرٹیکل 51 کو دوبارہ لکھا گیا ہے، وفاقی حکومت اس پر اپیل کرے گی یا نہیں یہ فیصلہ کابینہ کرے گی، بطور وزیر قانون نظر ثانی پر اپنی رائے محفوظ رکھوں گا، اتحادی جماعتوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ نظر ثانی دائر کرنی ہے یا نہیں۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا اب تک سمجھ نہیں پایا کہ سپریم کورٹ نے کون سا دائرہ اختیار استعمال کیا، عدالت اس طرح سے آرٹیکل 187 کا اختیار استعمال تو نہیں کر سکتی، فیصلے میں آئینی اور قانونی خامیاں ہیں کہ یہ زیر بحث رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ججز کے احتساب سمیت بہت سی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے، ایک جج ایک دن میں 35، 40 کیسز کا فیصلہ کرے، دوسرا نا کرے تو کیا یہ مس کنڈکٹ نہیں؟ جج کا فرض ہے کہ عام آدمی جس کے لیے نظام کھڑا کیا گیا ہے اس پر فوکس کریں، سارا رجحان سیاسی جماعتوں کی طرف ہے۔ فیصلہ سیاسی ہے، جو مباحثے ٹی وی پر چل رہے ہیں ان کے مطابق فیصلے ہو رہے ہیں، جو مانگا ہی نہ گیا ہو عدالت وہ فیصلہ کرے تو یہ میرے لیے تکلیف دہ ہے۔ مشیر وزیراعظم رانا ثناء اﷲ نے کہا ہے کہ ایسے فیصلے کبھی ملک کے مفاد میں نہیں ہوتے۔ اس فریق کو بن مانگے دیا گیا جو عدالت کے سامنے تھا ہی نہیں۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ آئین کو دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف ہے۔ آئی این پی کے مطابق رانا ثناء اللہ نے مزید کہا کہ ہماری قانونی ٹیم اس فیصلے کا جائزہ لے  رہی ہے، اپیل میں جانے یا نہ جانے کے نکتے پر فیصلہ کریں گے۔ حکومت اس فیصلے کو تسلیم کرتی ہے۔  سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ آج کے فیصلے میں ’’گڈ ٹو سی یو‘‘ کی جھلک نظر آئی۔ اور لاڈلا ازم کی سیاست چل رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے کنفیوژن پیدا ہوا۔ قانون کی پاسداری ہونی چاہیے لاڈلوں کی نہیں۔ پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمشن کے فیصلوں کو بھی بلڈوز کیا گیا۔  ایم کیو ایم کے رہنما مصطفیٰ کمال نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے آئین‘ قانون اور جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مرکزی ترجمان احسان اﷲ نے کہا کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں کے ساتھ وہ ریلیف دیا گیا جو مانگا ہی نہیں تھا۔  تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔  انہوں نے کہا کہ 8 فروری کے انتخابات پر ہمارے تحفظات آج بھی برقرار ہیں‘ یہ تاریخ کے سب سے زیادہ دھاندلی زدہ اور متنازع انتخابات تھے۔ مخصوص نشستوں سے متعلق بھی الیکشن کمشن نے ڈرامہ کیا۔ آئین کی بالادستی کے لئے عدلیہ میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ رانا ثناء اللہ نے مزید کہا سنی اتحاد کونسل میں بیان حلفی دے کر شمولیت اختیار کرنے والے ارکان کو کسی دوسری جماعت میں شامل ہونے پر الیکشن کمیشن ڈی سیٹ کر سکتا ہے۔ ہمیں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا احترام ہے، اس کے ججز بہترین اور لائق احترام ہیں، ان کی بنیادی ذمہ داری ہے، عدلیہ کے فیصلے نہ صرف انصاف پر مبنی بلکہ ان میں انصاف ہوتا بھی نظر آنا چاہئے، عدالتی فیصلے عام فہم ہونے چاہئیں، مبہم فیصلے کبھی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہوتے۔ فیصلے میں یہ قرار دیا گیا کہ 39 ارکان کا تعلق تحریک انصاف سے ہے جبکہ باقی 41 سے دوبارہ ان کی رائے پوچھنے کا حکم دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 قطعی طور پر اس صورتحال کو قبول نہیں کرتے، حکومت کے پاس اکثریت موجود ہے۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان سمیت کہیں بھی اس فیصلے کے حکومت پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی ڈائیلاگ پر پہلے بھی تیار تھے اور اب بھی تیار ہیں تاہم تحریک انصاف اس سے انکاری تھی۔  سیکرٹری اطلاعات پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین شازیہ مری نے کہا کہ ایک بار پھر ثابت ہوا کہ ’’لاڈلا‘‘ ہمیشہ ’’لاڈلا‘‘ ہوتا ہے۔
ڈی آئی خان+ کراچی+ اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں+ اپنے سٹاف رپورٹر سے) سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو جزوی طور پر تسلیم کرتے ہیں، بطور جماعت اپیل نہیں کریں گے۔ فیصلے سے متاثرہ افراد کو انفرادی طور پر اپیل سے نہیں روک سکتے۔ پی ٹی آئی کے ساتھ خیرسگالی کا اظہار کرتے ہیں۔ امید کرتے ہیں کہ دونوں جماعتوں کے باہمی تعلقات میں بہتری آئے گی۔ تحفظات دور کرنے کے لئے مذاکراتی ماحول تشکیل دینے کے لئے مددگار ثابت ہوگا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا کہ نوافل ادا کریں، اللہ کا شر ادا کریں، آج عوام جمہوری قوتوں کے لئے خوشی کا دن ہے۔ سپریم کورٹ نے آئین میں ترامیم کا راستہ روک دیا۔ یہ دو تہائی اکثریت لیکر آئین میں ترامیم کرنے جا رہے تھے۔ ثابت ہوگیا پاکستان میں جمہوریت ہے۔  لطیف کھوسہ نے کہا کہ چیف الیکشن کمشن فوری مستعفی ہو جائیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ سب کو دلی مبارک باد دیتا ہوں۔ پوری قانونی ٹیم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ حق اور سچ کی فتح ہوئی۔ چیف الیکشن کمشنر اور دیگر ارکان فوری مستعفی ہوں۔ الیکشن کمشن کے تمام اقدامات بدنیتی پر مبنی تھے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اب الیکشن کمشن کو استعفیٰ دے کر گھر چلے جانا چاہئے۔ یہ جماعتیں جمہور کی رائے کیخلاف ان سیٹوں پر بیٹھ کر وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہی تھیں، معاملہ یہیں ختم نہیں ہونا چاہئے۔ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ الیکشن کمشن نے مینڈیٹ چرانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکا، سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمشن پر عدم اعتماد کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج سپریم کورٹ نے حق دار کو حق ادا کر کے ادارے کا وقار بحال کر دیا۔ عدالت عظمی کے فیصلے کے بعد چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو چاہیے کہ وہ فوری استعفی دیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی جیت ہے اور آج کا دن عمران خان کے نام ہے۔ تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے  مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔  محمود اچکزئی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ انگریزی زبان کے مطابق BRAVO ہے۔ ان سخت حالات میں سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بہت بہت مبارکباد کا مستحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تحریک انصاف کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ سیٹیں سنی اتحاد کونسل کا حق تھیں یہ نہیں کہا کہ یہ کسی کا بھی حق نہیں تھیں۔ ہماری تحریک کو فضل الرحمان اور جماعت اسلامی بھی سپورٹ کر رہے ہیں۔ ہر ادارہ اپنی حدود میں کام کرے تو پاکستان بحرانوں سے نکل جائے گا۔ ہم صرف پارلیمان کو طاقت کا سر چشمہ دیکھنا چاہتے ہیں۔  اسد قیصرنے کہا کہ  سپریم کورٹ کے فیصلے سے قانون اور آئین کی فتح ہوئی ہے۔ ہم اپنی عدلیہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ فیصلے سے جمہوریت مضبوط ہوئی۔  ہمارے مینڈیٹ کو چوری کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے واضح ہوگیا کہ الیکشن کمیشن نے غلط تشریح کی۔ الیکشن کمیشن استعفیٰ دے۔ اسد قیصر نے کہا کہ محرم الحرام کے فوراً بعد ہم پورے ملک کا دورہ کریں گے ہم جلسوں کا آغاز کریں گے.

ای پیپر-دی نیشن