سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ ججز کی تعداد بڑھانے پر متفق، وزیر قانون نے الگ آئینی عدالت کی تجویز دیدی
اسلام آباد ( خصوصی رپورٹر+نمائندہ نوائے وقت) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف میں سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے پر متفق ہوگئیں، کمیٹی نے رجسٹرار سپریم کورٹ سے عدالت عظمی میں زیر التوا مقدمات جبکہ وزارت قانون سے ہائی کورٹ ججز کی خالی آسامیوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی معاملات پر آئینی عدالتوں کی تشکیل کی تجویز دے دی۔ پی ٹی آئی کے حامد خان کی آئینی عدالتوں کی تشکیل سے متعلق تجویز کی مخالفت کر دی کہا آئینی عدالت سپریم کورٹ ہے دنیا میں اگر آئینی عدالت الگ بنائی گئی تو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے پر اتفاق کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے سے متعلق زیر التوا مقدمات جبکہ ہائی کورٹس میں ججز کی خالی اسامیوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ وزارت قانون و انصاف کے تفصیلات پیش کرنے پر سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے کا معاملہ طے ہوگا، سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد کتنی ہوگی یہ کمیٹی طے کرے گی، سپریم کورٹ میں کیسز کا بوجھ بڑھا مگر ججز وہی 17 ہیں۔بل کی محرک سینیٹر فوزیہ ارشد نے کہا کہ ابھی بھی تو 4 ایڈہاک ججز کی تجویز آئی یہ ججز کی تعداد بڑھانے کی ضرورت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس سے مقدمات کی تفصیل منگوا کر دیکھ لیں تو پھر بحث کر سکتے ہیں کیا پتہ 24 ججز سپریم کورٹ میں درکار ہوں۔اس پر سینیٹ قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے کا بل آئندہ اجلاس تک موخر کردیا۔قبل ازیں اجلاس میں سپریم کورٹ ججز کی تعداد بڑھانے سے متعلق تحریک انصاف کی سینیٹر فوزیہ ارشد کی جانب سے کمیٹی میں پیش آئینی ترمیمی بل کا جائزہ لیا گیا۔چیئرمین کمیٹی فارق ایچ نائیک نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانا سادہ قانون سازی سے ممکن ہے، ججز کی تعداد بڑھانے کے لیے آئینی ترمیم درکار نہیں، سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 19 نہیں بلکہ 21 ہونی چاہیے۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ کو ایک آئینی عدالت ہونا چاہیے، اپیلیٹ فورم ہائیکورٹ کے سطح تک محدود کر دیں، سپریم کورٹ میں جائزہ لے لیں کہ کتنے فل کورٹ یا لارجر بنچز بنائے گئے۔پی ٹی آئی کے سینیٹر حامد خان نے کہا کہ آئینی عدالت سپریم کورٹ ہے اور کوئی اور ہونی نہیں چاہیے، دنیا میں اگر آئینی عدالت الگ بنائی گئی تو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے، فرانس اور جرمنی میں آئینی عدالتی متوازی نظام کے طور پر کام کرتے ہیں بھارت میں ہم سے کئی گنا زیادہ آبادی پر ایک سپریم کورٹ ہی ہے۔رکن کمیٹی سینیٹر انوشہ رحمان نے کہاکہ سپریم کورٹ کو اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے، ہماری عدلیہ ہائی پروفائل کیسز میں الجھ گئی ان کیسز کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے کہ جن سے خبر بنے، کچھ ججز اپنے عہدے کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں جبکہ کچھ نہیں کر رہے۔سینیٹر انوشہ رحمان نے کہا کہ آئینی عدالت کے قیام کی حمایت کرتی ہوں، وزیر قانون حقائق دیں کہ ججز کی کنڈکٹ کی وجہ سے زیر التوا کیسز بڑھ رہے ہیں یا کسی اور وجہ سے، دیکھنا یہ ہیں کہ کتنے ججز کی سپریم کورٹ میں ضرورت ہے۔وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ نے کہا کہ یہ عدلیہ کی آزادی نہیں یہ عدلیہ کی صلاحیت کا ایشو ہے ماتحت عدلیہ سے لے کر سپریم کورٹ تک ججز آزادی کو انجوائے کرتے ہیں ٹائم لائین کو سب بھول گئے ہیں عدلیہ کی پوری دنیا ریٹنگ کم کیوں ہے؟ مشورہ دیا گیا کہ وقت ایسا ہے کہ آئینی عدالت کی طرف جانا چاہیے۔وزیر قانون نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر پر سوالات انگلیاں اٹھائیں گئیں کہا گیا پریکٹس پروسیجر عدلیہ پر تجاویز ہے سپریم کورٹ نے خود اس قانون کو تسلیم کرلیا یہ بات کہ آئینی ترمیم کے کیسز میں پہلے پانچ سینئر جج سن لیں اس نقطہ پر قانون میں ترمیم لے آئیں باقی ججز عام سائلین کے مقدمات سنیں۔چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اعلی عدلیہ میں مقدمات کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے مقدمات کی تعداد بڑھ گئی ہیں تو فیصلوں کا تعداد بھی بڑھ گئی ہیں سپریم کورٹ ججز پوری تندہی سے مقدمات کا فیصلہ کر رہے ہیں ہائیکورٹس سے اپیلیں زیادہ آ رہی ہیں سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد کم پڑگئی ہے۔اجلاس میں کمیٹی نے آئینی کے آرٹیکل 25 بی جبکہ اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں اضافے سے متعلق آرٹیکل 51 اور 106 میں بھی مجوزہ آئینی ترمیمی بل اور آرٹیکل 62 میں میں مجوزہ ترمیم کا بل بھی موخر کردیا۔وفاقی وزیر برائے قانون، انصاف اور انسانی حقوق، سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے ’آواز ایپ‘ کا افتتاح کیا، جو ایک جدید موبائل ایپلی کیشن ہے جس کا مقصد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو موثر طریقے سے رپورٹ اور حل کرنا ہے۔ آواز ایپ وزارت انسانی حقوق کا ایک اہم اقدام ہے، جو کہ اہم انسانی حقوق کے مسائل پر فوری ردعمل کو یقینی بناتا ہے۔ جس میں گمشدہ یا اغوا شدہ بچوں کے کیسز شامل ہیں۔