مذاکراتی ٹیم مطالبات سے بھاگ رہی، دھرنا حکومت ہٹاؤ تحریک میں بدل سکتا: حافظ نعیم
راولپنڈی (جنرل رپوٹر) امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت دھرنا کے شرکاء کے جذبات دیکھ لے۔ حیلے بہانے، ٹال مٹول کی بجائے سیدھے طریقے سے مطالبات مان لیے جائیں۔ عوامی ریلیف کے اعلان تک دھرنا ختم نہیں ہو گا۔ شاہراہیں بند کرنے، شٹر ڈائون کے آپشن بھی موجود ہیں۔ حکمرانو! مراعات کم کرو، فری بجلی، پٹرول کے مزے ختم کرو۔ بتایا جائے 1300سی سی گاڑیاں استعمال کرنے میں کون سی رکاوٹ ہے؟۔ دو روز تک مطالبات نہ مانے گئے تو میڈیا کے سامنے مذاکرات ہوں گے۔ حکمرانوں سے پوچھتا ہوں پاک ایران گیس پائپ لائن مکمل کیوں نہیں ہو رہی؟۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ دھرنے کے ساتویں روز ہزاروں کی تعداد میں افراد مری روڈ پر موجود تھے۔ شرکاء کا جوش و جذبہ دیدنی تھا اور سب ڈی چوک جانے کے نعرے لگا رہے تھے۔ امیر جماعت نے واضح کیا کہ جماعت اسلامی نے لڑائی کے راستے کا انتخاب نہیں کیا، ہم نے پرامن دھرنا دے کر تاریخ رقم کی ہے، لڑائی کر کے واپس نہیں جانا چاہتے تھے، حکومت کو کوئی موقع فراہم کریں گے نہ کسی قسم کا کمپرومائز ہو گا۔ اس موقع پر نائب امراء لیاقت بلوچ، ڈاکٹر اسامہ رضی، ڈاکٹر عطاء الرحمن، ڈپٹی سیکرٹری جنرلز اظہر اقبال احسن، شیخ عثمان فاروق، امیر جماعت اسلامی کے پی کے پروفیسر محمد ا براہیم، نائب امیر کے پی عنایت اللہ خان، سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف و دیگر قیادت موجود تھی۔ حافظ نعیم نے کہا کہ یہ دھرنا پورے پاکستان کی امید بن رہا ہے، لوگ جماعت اسلامی سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم سے سوال کیا کہ کون سا معاہدہ آپ کو افسر شاہی کی مراعات کم کرنے سے روک رہا ہے، کس معاہدے کے تحت جاگیرداروں پر ٹیکس نہیں لگ سکتا؟۔ ملک ان جاگیرداروں پر ٹیکس لگانے سے چلے گا، وزیراعظم اپنی بھتیجی، بھائی اور ان کے سمدھی کو بتا دیں کہ جتنی ٹال مٹول کریں گے، دھرنا ختم نہیں ہو گا پھیلتا جائے گا، لوگ آگے بڑھنے کے لیے تیار ہیں، ہم کوئی غیر آئینی اقدام نہیں کریں گے، اگر مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو پورے ملک کی شاہراہیں بند کریں گے۔ پوچھتا ہوں گاڑیوں کے پٹرول بند کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟۔ مفت بجلی کیوں بند نہیں کی جاتی۔ وزیراعظم شہباز شریف قوم سے جھوٹ بولنا چھوڑ دیں۔ کیوں قوم کے پیسے کو کوڑیوں کی طرح کیپسٹی چارجز کی مد میں کمپنیوں کی جھولی میں ڈالا جاتا ہے، کیوں آج تک پوچھا نہیں گیا یہ فراڈ معاہدے کس نے کیے؟۔ 1994 میں آئی پی پیز کے نام پر جعلی معاہدے کیے گئے، یہ معاہدے فی الفور منسوخ کیے جائیں۔ حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کیوں تکنیکی معاملات میں پھنسی ہے، یہ جھوٹے لوگ ہیں، ہمارے مطالبات سیدھے سادھے ہیں، حکومت کو پورا روڈ میپ دیا ہے، کہتے ہیں آئی ایم ایف کا معاہدہ رکاوٹ ہے، پوچھنا چاہتا ہوں آئی ایم ایف کا معاہدہ تو تعلیم، صحت اور اشیائے خوردونوش پر ٹیکس لگانے کی اجازت نہیں دیتا ہے، پھر حکومت ان چیزوں پر ٹیکس کیوں لگاتی ہے۔ ایک طرف کہتے ہیں آئی ایم ایف کے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے دوسری طرف خود ہی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں۔ حکمران دراصل اپنی شاہ خرچیوں کو لگام نہیں دینا چاہتے، اب انہیں لگام دینی پڑے گی، قوم کو جبری ٹیکس کے نظام سے چھٹکارا دلایا جائے۔ تنخواہ داروں پر ٹیکس در ٹیکس لگا کر کیوں ظلم کرتے ہو یہ ظلم بند کرو۔ لوگوں کو جینے کا حق دو۔ اب تمام صوبوں میں اور پورے ملک میں تمہارے خلاف تحریک چلے گی۔ سیدھی سیدھی بات ہے مطالبات مان لو، قوم کو ریلیف دو ورنہ یہ دھرنا حکومت گرائو تحریک میں بدل جائے گا۔ امیر جماعت نے کہا کہ اسرائیل فلسطین میں سفاکیت کر رہا ہے، مگر اسلامی دنیا کے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی، امریکا کو کیا کہیں وہ تو کھلی دہشت گردی کر رہا ہے، اس کے وفادار بھی خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔