کابینہ نے گرانٹ کی منظوری دیدی، 5 سال سے زائد لاپتہ شخص کے خاندان کو 50 لاکھ روپے دیں گے: وزیر قانون
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) مسنگ پرسنز پر ’’نیشنل کانسنس اینڈ لیگل ریزولوشن‘‘ کے تحت حکومت نے ہر خاندان کی معاشی مشکلات کو دور کرنے کے لیے گرانٹ کے طور پر 50 لاکھ روپے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کی جانب سے گرانٹ پانچ سال سے زیادہ عرصے والے ’’گمشدہ افراد‘‘ کے خاندانوں کو دی جائے گی۔ ریاست ’’گمشدہ افراد‘‘ کی ذمہ دار نہیں لیکن متاثرہ خاندانوں کے دکھ میں شریک ہے۔ لاپتہ افراد میں اگر کوئی سربراہ ہے تو نادرا کے ذریعے ان کا قانونی سرٹیفکیٹ بنایا جائے گا تاکہ ان کے وراثت کے مسائل نہ ہوں۔ وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کے خاندانوں کی مدد کے لیے ریاست نے غیر معمولی اور تاریخی فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی کابینہ نے گرانٹ کی منظوری دے دی ہے، یہ ریاست کا ایک مخلصانہ رویہ ہے، یہ متاثرہ خاندانوں کی مشکلات دور کرنے اور ان کے غم میں شریک ہونے کی ایک کوشش ہے۔ وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ "گمشدہ افراد" کے پیچھے متعدد اور پیچیدہ وجوہات ہیں، ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے حکومت وقت نے آج پھر ثابت کر دیا ہے، درناک الزامات کے باوجود ریاست اور اداروں کا ایک مخلص قابل تحسین قدم ہے، پاکستان میں ہر شہری کی زندگی کا تقدس اور تحفظ اہم ہے۔ ’’نیشنل کانسنس اینڈ لیگل ریزولوشن‘‘ کے تحت حکومت نے ہر خاندان کی معاشی مشکلات کو دور کرنے کے لیے قدم اٹھایا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق سابق پی ڈی ایم کی حکومت میں اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا تھا۔ انکوائری ایکٹ کے تحت جو کمشن بنا ہے ان میں 2269افراد کا ڈیٹا ہے، ایک ہزار کیسز جو پانچ سال سے زیادہ زیر التوا ہیں ان کو حل کیا جائے گا۔ وفاقی کابینہ نے ایک ہزار لاپتہ افراد کو یہ امداد دینے کا فیصلہ کیا ہے، لاپتہ افراد میں اگر کوئی سربراہ ہے تو نادرا کے ذریعے ان کا قانونی سرٹیفکیٹ بنایا جائے گا تاکہ ان کے وراثت کے مسائل نہ ہوں۔ پنجاب میں 1681لاپتہ افراد تھے جن میں سے 1418 کو حل کر لیا گیا، 263 حل طلب ہیں اور 56کیسز عدالتوں میں ہیں۔ سندھ میں 1823لاپتہ افراد ہیں جن میں سے 1645 حل ہوگئے جبکہ 178حل طلب ہیں اور عدالت میں 232کیسز زیر التوا ہیں۔ خیبر پی کیمیں 3548لاپتہ افراد کے کیسز ہیں جن میں سے 2231حل ہوگئے جبکہ 1317 حل طلب اور 203 عدالت میں ہیں۔ بلوچستان میں 2798لاپتہ افراد کے کیسز ہیں جن میں سے 2623 حل کر لیے گئے جبکہ 436حل طلب ہیں اور کورٹ میں تین کیسز زیر التوا ہیں۔ اسلام آباد میں 381 کیسز ہیں جن میں سے 322 حل کر لیے گئے جبکہ 59حل طلب ہیں اور عدالت میں 31کیسز زیرا لتوا ہیں۔ آزاد کشمیر میں کل 70کیسز تھے جن میں سے 56 حل کر لیے گئے اور 14 حل طلب ہیں۔ گلگت بلتستان میں 10 کیسز تھے جن میں 8حل کر لیے گئے اور 2کیسز باقی ہیں۔ لاپتہ افراد کی گرانٹ کے لیے طریقہ کار طے کیا جا رہا ہے، سب کو معاوضہ دیا جائے گا، لاپتہ افراد کے خاندان کمشن میں پیش بھی ہو رہے ہیں اور اپنی تفصیلات شیئر بھی کر رہے ہیں۔ لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے سال 2011 میں انکوائری ایکٹ کے تحت کمشن بنا تھا، جبری گمشدگی کے 78فیصد کیسز حل ہوچکے ہیں جبکہ 22فیصد باقی ہیں۔لاپتہ افراد میں ریاست اور حکومت کا کوئی کردار نہیں لیکن حکومت مدر ہڈ پالیسی کے تحت لاپتہ افراد کے خاندانوں کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ لاپتہ افراد دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ گئے اور کچھ دہشتگردوں کے ساتھ مل گئے، کچھ آپریشن میں مارے گئے۔ چھیپا اور ایدھی نے 2010 سے اب تک 44ہزار افراد دفنائے جو ناقابل شناخت ہیں۔ لاپتہ افراد میں کوئی جنگ لڑنے تو کوئی پہاڑوں پر گیا اس میں ان کے خاندانوں کا تو کئی قصور نہیں ہے۔ بھارت میں 3لاکھ 47ہزار، امریکہ میں ایک لاکھ 93ہزار اور برطانیہ میں 2لاکھ 41ہزار افراد لاپتہ ہیں۔ لاپتہ افراد واپس آنے پر فیملی کو دی گئی گرانٹ واپس نہیں لی جائے گی۔ کل 2269 لاپتہ افراد کیسز میں سے ایک ہزار 269 کیسز باقی ہیں، لاپتہ افراد کے باقی کیسز کا دو سال بعد جائزہ لیا جائے گا اور ہر دو سال بعد وفاقی حکومت لاپتہ افراد کے معاملات کا جائزہ لے گی۔