اٹارنی جنرل کو علم ہی نہیں چیزیں کیسے ہو رہی ہیں: چیف جسٹس
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) وائلڈ لائف بورڈ مینجمنٹ آفس اور چیئرپرسن کی تبدیلی سے متعلق کیس میں اٹارنی جنرل نے وائلڈ لائف بورڈ وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کے عمل کو روکنے کی یقین دہانی کرائی دی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا چیئرپرسن وائلڈ لائف بورڈ کو عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن بھی واپس لیں گے۔ عدالت نے چیئرپرسن وائلڈ لائف بورڈ رعنا سعید کی برطرفی روک دی۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کے نوٹیفکیشن پر بھی عملدرآمد روک دیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا منگل کو کابینہ کا اجلاس ہوگا اس میں معاملہ وزیر اعظم کے علم میں لائوں گا۔ عدالت نے پائن سٹی سے متعلق تفصیلات بھی طلب کر لیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا دوسرے لوگوں اور بیوروکریٹس نے ملک کا نظام سنبھال لیا ہے۔ اٹارنی جنرل آپ کو علم ہی نہیں کہ چیزیں کیسے ہو رہی ہیں۔ دوران سماعت سیکرٹری کابینہ کی جانب سے وزیراعظم کو صاحب کہنے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یا پرائم منسٹر کہیں یا شہباز شریف صاحب کہیں، انگریزی میں پرائم منسٹر صاحب کوئی لفظ نہیں ہے، غلامی کی زنجیریں توڑ دیں، وزیراعظم صاحب نہیں ہوتا، شہباز شریف صاحب کہیں تو سمجھ آتی ہے۔ سیکرٹری کابینہ کامران افضل نے کہا کہ نیشنل پارک وزارت داخلہ کو دینے کی سمری میں نے نہیں بھیجی تھی، وزیراعظم نے خود حکم جاری کیا تھا جو مجھ تک پہنچا۔ چیف جسٹس نے کہا آپ نے وزیراعظم کو کہا نہیں کہ یہ رولز کی خلاف ہے؟۔ سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی نے کہا جوڈیشل ریویو کا اختیار عدالتوں کو حاصل ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا وزارت داخلہ کو محکمہ جنگلی حیات تبدیلی کیوں دیا گیا، یہاں ایک سماعت میں ایک افسر آئے تھے جو خود ہی چلے گئے تھے، اس کا نام بتائیں جو عدالت سے چلے گئے تھے، یہ افسر جنرل پہلے تو عدالت کو فائلیں ہی نہیں دکھا رہے تھے، وہ ہم سے فائلیں چھپا رہے تھے، یہ ملک ہے اس کا تماشا بنا دیا گیا ہے، نیشنل پارک محکمہ جنگلی حیات سے لے کر وزارت داخلہ کو دینا کیا اچھی طرز حکمرانی ہے، ہم عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمائندوں کا احترام کرتے ہیں، عوامی ووٹوں سے منتخب لوگ ووٹ لے کر آتے ہیں اور پھر انہیں پرچڑھائی کر دی جاتی ہے، پارلیمنٹ کے باہر سے لے کر میرے گھر تک پائین سٹی ہاؤسنگ پراجیکٹ کے بینر لگے ہوئے ہیں، بینرز پر منصوبے کے حوالے سے سی ڈی اے سپانسرڈ لکھا ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ بیوروکریٹس عوام کی نہیں کسی اور کی خدمت کر رہے ہیں، یہ ملک عوام کے لیے بنا ہے صاحبوں کے لیے نہیں بنایا تھا، توہین عدالت کی درخواست نہ آتی تو سب کچھ خاموشی سے ہو جاتا، ملک ایسے نہیں چلے گا، ہم ریسٹورنٹ ہٹانے نکلے تھے یہاں تو ہاؤسنگ سوسائٹیاں نکل آئی ہیں، کیا وزیراعظم کل کسی کو گولی مارنے کا حکم دے تو گولی مار دیں گے؟۔ محکمہ وائلڈ لائف کو موسمیاتی تبدیلی کی وزارت لے کر جنگلات یا کسی دوسری متعلقہ وزارت کے حوالے کرتے تو بات سمجھ بھی آتی، اٹارنی جنرل آفس لاء اینڈ جسٹس کمیشن سے منسلک ہے اگر اسے وزارت صحت سے منسلک کر دیں تو کیا یہ درست منطق ہوگی؟۔ میں ذاتی طور پر توہین عدالت کی کارروائی کے حق میں نہیں ہوں۔ اٹارنی جنرل نے کہا میں کابینہ کے فیصلے کے بعد آپ کو چیمبر میں تفصیلات سے آگاہ کر دوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا ہم چیمبر میں کچھ نہیں کرتے، میری عدالت میں جو بھی ہوتا ہے کھلی عدالت میں ہوتا ہے، آپ ہمیں کھلی عدالت میں ہی تمام تفصیلات پیش کریں گے، ہم نہ چیمبر میں تفصیلات لیں گے اور نہ ہی بات سنیں گے، وزارت داخلہ اگر اتنی ہی اچھی ہے تو صحت، تعلیم اور قانون سمیت ساری وزارتیں انہیں دے دیں۔