قید ملزم کا شامل تفتیش نہ ہونا حیران کن، جسٹس بابر: نیب گرفتار نہ کرتا تو عمران جیل سے باہر آ جاتے، جسٹس گل حسن
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران اور ان کی اہلیہ کی نئے توشہ خانہ کیس میں کال اپ نوٹس اور پھر گرفتاری کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس بابر ستار نے کہا کہ جیل میں قید ملزم کا شامل تفتیش نہ ہونا میرے لیے حیران کن بات ہے۔ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ آخرکار ہماری تین درخواستوں کو یکجا کر دیا گیا۔ نیب نے کال نوٹس بھیجا تو ہم نے ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ ان درخواستوں میں سے ایک پر 8 مارچ کو آخری بار سماعت ہوئی مگر اس کے بعد کچھ نہیں ہوا۔ طلبی کے نوٹسز کے بعد درخواست ضمانت دائر کر دی گئی۔ نیب کال آپ نوٹسز کے سوا کچھ بھی فراہم نہیں کیا گیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کو صرف ایک ہی کال اپ نوٹس ایشو ہوا تھا؟۔ سلمان صفدر نے بتایا کہ ہمیں صرف ایک کال اپ نوٹس موصول ہوا اور اس میں بھی کچھ واضح نہیں کیا گیا۔ اس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ہم نے یاد دہانی کے لیے دوسرا نوٹس بھی ایشو کیا تھا۔ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی نے نیب تفتیش میں تعاون نہیں کیا، جیل سپرنٹنڈنٹ نے بتایا کہ عمران نے نیب پیشی سے انکار کر دیا ہے۔ جسٹس بابر ستار نے کہا کہ جیل میں قید ایک شخص کیسے تفتیش جوائن کرنے سے انکار کر سکتا ہے؟ کیا نیب تمام 26 دن کے ریمانڈ میں اڈیالہ جیل تفتیش کے لیے جاتا رہا؟۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ نیب کے وارنٹ 13 جولائی کی جادوئی تاریخ کو کیوں جاری ہوئے؟ نیب پراسیکیوٹر کے مطابق وارنٹ گرفتاری 13 جولائی کو نہیں بلکہ پہلے جاری ہوئے۔ اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دئیے کہ وجہ یہ ہے کہ نیب گرفتار نہ کرتا تو عمران خان جیل سے باہر آ جاتے۔ نیب کے کئی کال اپ نوٹسز تو ایسے ہیں جن پر ہم نے گرفتاری سے روکا ہے، نیب کا پہلا کال اپ نوٹس تو درست نہیں، دوسرا ہمیں دکھا دیں، آپ نیب کے مبہم کال اپ نوٹس پر گرفتاری کا جواز کیسے پیش کریں گے؟ عدالت آج ہی گرفتاری کو غیرقانونی قرار دے سکتی ہے۔ کیا نیب نے توشہ خانہ کے دیگر تحائف پر بھی کسی کے خلاف انکوائری کی ہے؟ کیا کابینہ ڈویژن کی فہرست کے مطابق کسی ایک شخص نے بھی تحفہ توشہ خانہ میں جمع کرایا ہے؟ نیب نے اپنی نیک نیتی ثابت کرنی ہے کہ وہ استعمال نہیں ہو رہے۔ نیب نے یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ آزادانہ کارروائی کر رہے ہیں۔ نیب نے دیگر زیادہ مہنگے تحائف پر اپنی آنکھیں بند کیسے کیں؟ نیب نے صرف یہ کیس کیسے پِک کر لیا ہے؟ کیا نیب نے سیکرٹری کابینہ کے کردار کا تعین کیا ہے؟ نیب کو بلغاری سیٹ کے تحفے سے متعلق کب معلوم ہوا؟ نیب نے پہلے ایک تحفے کو الگ کر کے کیس بنایا، باقی اب کر رہے ہیں۔ اس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ دیگر تحائف سے متعلق نیب کی تفتیش مکمل نہیں ہوئی تھی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ نیب نے اس کیس میں ریفرنس دائر کیوں نہیں کیا؟ اگر نیب ایک ماہ مزید تاخیر کر دے تو عدالت نے پھر بھی اس معاملے کو دیکھنا ہے۔ نیب واضح کہہ دے کہ انہوں نے عمران خان کی گرفتاری کا تحفظ کرنا ہے۔ کیا نیب نے اس کیس میں دیگر تمام ملزموں سے تفتیش مکمل کر لی ہے؟ نیب پراسکیوٹر نے کہا کہ نیب نے گرافٹ جیولری کے ایک تحفے کی بنیاد پر پہلا ریفرنس بنایا، دوسرا ریفرنس بلغاری سیٹ کے تحفے کی بنیاد پر بنایا گیا، اس پر جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب دیگر 56 تحائف کو الگ سے بھی رکھ سکتے ہیں؟ نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جی، قانون میں اس حوالے سے کوئی پابندی نہیں ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ نیب اگر دیگر تحائف کی بنیاد پر نیا کیس بناتا ہے تو قانون میں کیا چیز نیب کو روک سکتی ہے؟ عمران کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی نے نیب تفتیش جوائن کر لی ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دئیے کہ ہم آئندہ تاریخ پر اس کیس کو فِکس کریں گے، نیب کے تفتیشی افسر آج یا کل اڈیالہ جیل جا کر سوالنامے کے جواب لیں۔ جسٹس بابر ستار نے کہا کہ جیل میں قید ملزم کا تفتیش جوائن نہ کرنا میرے لیے حیران کن بات ہے۔ اس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ملزم سابق وزیراعظم ہے۔ جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دئیے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ عمران خان نے پہلی سماعت پر جج سے کہا کہ جب تک میڈیا نہیں آتا کارروائی نہیں ہو گی۔ جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا کہ یہ جج کی ناکامی تھی۔ جسٹس حسن اورنگزیب نے ریمارکس دئیے کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کے تفتیش میں عدم تعاون کے ساتھ اس کیس کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 21 اگست تک ملتوی کر دی۔