سینٹ: وزراء کی عدم موجودگی، اپوزیشن کا احتجاج، بلوچستان کوئی آپریشن نہیں ہو رہا، بدامنی سازش: وزیر داخلہ
اسلام آباد (خبر نگار) ایوان بالا میں حکومتی وزراء کی عدم موجودگی پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہاکہ حکومت وقت سے پہلے ختم ہورہی ہے اور وفاقی وزراء اس ایون کو کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ جمعہ کو ایوان بالا میں نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ لاہور میں میرے بہنوئی نے شمسی توانائی کا سسٹم لگایا مگر اسے لیسکو نے9ہزار یونٹ کا بل بھجوا دیا۔ عام شہری کے ساتھ کس طرح کا سلوک دفاتر میں کیا جاتا ہے‘ معاملے کو متعلقہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔ اس موقع پر اپوزیشن لیڈر سینیٹر شبلی فراز نے کہاکہ حکومتی وزراء ایوان میں موجود نہیں ہیں، ہم اپنی شکایت کس کو کریں، ابھی تو حکومت کے دن باقی ہیں مگر ابھی سے وزراء چلے گئے ہیں۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہاکہ اگر وفاقی وزراء ایوان کو توجہ نہیں دیتے ہیں تو ہم بھی چلے جاتے ہیں۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ وفاقی وزراء قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں بھی شریک نہیں ہوتے‘ بیوروکریسی حکومت کو چکر دینے کی کوششوں میں رہتی ہے۔ جس پر قائم مقام چیئرمین سینیٹر عرفان الحق صدیقی نے کہاکہ وفاقی وزراء کی غیر موجودگی سے ایوان کا وقار کم ہوتا ہے۔ ایوان بالا میں اے این پی کے سینیٹر عمر فاروق نے بلوچستان کے مسئلے پر آئی جی ایف سی اور کورکمانڈر بلوچستان کو بلانے کا مطالبہ کردیا۔ جمعہ کے روز سینٹ اجلاس کے دوران سینیٹر عمر فاروق نے کہا کہ بلوچستان میں حکومت کی کوئی رٹ نہیں ہے اور تمام تر فیصلے کوئی اور کرتے ہیں۔ آئی جی کو بلا کر پوچھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کور کمانڈر بلوچستان سے پوچھنا چاہیے کہ وہاں پر کیا کر رہے۔ بلوچستان کے ایک ایک چیک پوائنٹ پر پیسہ لیا جاتا ہے۔ بلوچستان کے حالات مشرف کے وقت سے خراب ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ میں وہاں سے ہٹ کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ جو کہتے ہیں کہ بلوچستان ایک ایس ایچ او کی مار ہے وہ پہلے کچے کے ڈاکوئوں سے اپنے بکتر بند گاڑیاں تو واپس لے آئیں۔ جب تک اس کا حل نہ نکالا جائے اس وقت تک بلوچستان کے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں کوئی آپریشن نہیں ہو رہا ہے، 26 اگست کا واقعہ معمولی واقعہ نہیں ہے، ہمیں معلوم ہے اس کے پیچھے کون ہے، یہ ایس سی او سربراہ کانفرنس کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے۔ جو لوگ ریاست کو تسلیم کرتے ہیں ان کو اپنے سر پر بٹھائیں گے لیکن جو ریاست کو نہیں مانتے اور بندوق اٹھاتے ہیں وہ دہشت گرد ہیں، ہم ان کا بندوبست کریں گے۔ جمعہ کو ایوان بالا میں نکتہ ہائے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ اپیکس کمیٹی صوبوں اور متعلقہ اداروں کے ساتھ کوآرڈینیشن کرتی ہے، پارلیمنٹ سپریم ہے اور سپریم رہے گی اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ ان اختلافات کو دور کرنے کی کوشش پہلے بھی کرتے رہے ہیں۔ جو ریاست کے خلاف جائے گا، اس کے خلاف ہم سب اکٹھے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں وفاقی حکومت کے افسران کی کمی ہے، ایک درجن سے زائد فیصلے ہوئے ہیں، چھوٹے چھوٹے مسائل ہم نے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ وزیر دفاع بھی واضح کر چکے ہیں کہ ہمیں بالکل پتہ ہے کہ اس کے پیچھے کون ہے، ایس سی او کانفرنس کے خلاف بھی ایک سازش ہے۔ تحریک انصاف کی خاتون سینیٹر زرقہ سہروردی تیمور نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت نہ ملنے پر ایوان بالا میں احتجاج کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان اس وقت جس نہج پر کھڑا ہے اور جن مشکلات کا سامنا ہے اس کو اکیلے حل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں بلوچستان کی ان خواتین، مائوں، بیٹیوں اور جوانوں کی بات کو سننا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اڈیالہ جیل کے حکام ہمیں اپنے لیڈر سے ملنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں اور ہمارا استحقاق مجروح ہوتا ہے۔