• news

بیرسٹر گوہر رہا، 5 پی ٹی آئی ارکان کا جسمانی ریمانڈ: سپیکر برہم، پروڈکشن آرڈر جاری، گرفتار کرنے والوں پر مقدمات بنانے کا اعلان

اسلام آباد (وقائع نگار+ نمائندہ نوائے وقت+ خبر نگار خصوصی+ اپنے سٹاف رپورٹر سے + ایجنسیاں) سپیکر قومی اسمبلی نے پارلیمنٹ ہائوس سے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کی گرفتاریوں کا نوٹس لے لیا۔ سپیکر نے پروڈکشن آرڈر کے ذریعے آئی جی اسلام آباد کو تمام گرفتار ارکان کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ سپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں سپیکر نے  واقعہ پر کارروائی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کے واقعہ پر سٹینڈ لینا پڑے گا، اگر کوئی ملوث ہوا تو ایف آئی آر کٹوائیں گے۔ سردار ایاز صادق کا کہنا تھا کہ جو پارلیمنٹ پر ہوا اسے تیسرا حملہ سمجھتا ہوں، اس پر خاموش نہیں رہا جا سکتا، کل کے واقعہ کی تمام فوٹیجز طلب کی ہیں، اس معاملے کو ہم سنجیدگی سے دیکھیں گے، حقائق اور فوٹیج دیکھنے کے بعد ایکشن لیا جائے گا۔ سپیکر نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد، ڈی آئی جی آپریشنز اور ایس ایس پی آپریشنز کو فوری طلب کر لیا۔ اس موقع پر سپیکر قومی اسمبلی کے چیمبر میں ارکان پارلیمنٹ کی میٹنگ ہوئی۔ علی محمد خان، اعظم نذیر تارڑ، نوید قمر، محمود خان اچکزئی سپیکر چیمبر میں موجود تھے۔ میٹنگ میں واقعہ پر مشاورت کی گئی، سپیکر نے قومی اسمبلی کی تمام داخلی و خارجی راستوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج منگوا لی۔ علی محمد خان نے بھی گزشتہ روز کے واقعے کی تمام فوٹیجز سپیکر کو فراہم کر دیں۔ سپیکر نے آئی جی اسلام آباد سے تمام واقعات کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ اپنے ممبران کی تذلیل کسی صورت برداشت نہیں کروں گا ، کل جن ارکان کو بھی گرفتار کیا ہے ان کو رہا کیا جائے۔ قومی اسمبلی اجلاس میں پی ٹی آئی رہنمائوں کی گرفتاریوں پر حکومت اور اپوزیشن میں گرما گرمی ہوئی۔  پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نوید قمر نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر گھس کر اراکین کو گرفتار کیا گیا تو باقی کیا بچا،  یہ پورے آئین، پوری پارلیمنٹ پر بہت سنجیدہ حملہ ہے،ہائوس میں آئیں گے اور آپ کو گرفتار کریں گے، اس پر آپ کو سنجیدہ انکوائری کرکے سنجیدہ ایکشن لینا پڑے گا۔ یہ پورے آئین، پوری پارلیمنٹ پر بہت سنجیدہ حملہ ہے۔ جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ جب آپ کہیں گے کہ خان نہیں تو پاکستان نہیں، اس کا کیا ردعمل آئے گا؟۔ اس قسم کی باتیں  ری ایکشن کو جواز فراہم کرتی ہیں، کیا پاکستان کا وجود ایک شخص سے نتھی کیا جاسکتا ہے، یہ کہتے ہیں کہ پختونوں کا لشکر لے کر پنجاب پر حملہ آور ہوں گے۔ انہوں نے جلسے میں جو زبان استعمال کی، اس پر صحافیوں نے بھی احتجاج کیا، پرسوں پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن تھا، پی ٹی آئی نے اتوار کو پاکستان کا وجود چیلنج کیا، انہیں اپنے رویے درست کرنا ہوں گے، یہ کہتے ہیں کہ ہم صرف فوج سے بات کریں گے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ کل کا عمل پرسوں کا ری ایکشن تھا، پاکستان کے وجود کو پرسوں چیلنج کیا گیا، پاکستان کے فیڈریشن کو چیلنج کیا گیا، اس کے بعد آپ کیا توقع رکھتے ہیں۔ وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے کہا کہ میں ہوں تو پاکستان ہے یہ اختلاف رائے نہیں، کچھ اور ہے، علی محمد خان آج جتنا چیخے ہیں، بانی پی ٹی آئی عمران خان کو سمجھایا ہوتا تو یہ حالات نہیں ہوتے، آج بھی موقع ہے اڈیالہ جیل جا کر قیادت کو سمجھائیں۔قومی اسمبلی اجلاس میںاظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے جلسے میں جس قسم کی تقاریر ہوئیں، کسی نے مذمت کی؟ ۔محمود اچکزئی نے پارلیمنٹ میں وزیراعظم کو بے ایمان کہا، حیران ہوں محمود اچکزئی اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں۔ رہنما متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم )مصطفی کمال نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ سے گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہیں، گزشتہ روز کے واقعہ کی کوئی بھی تائید نہیں کر سکتا۔قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن سے درخواست ہے بریک لگا دیں، جب زہر بوئیں گے تو زہر ہی کاٹیں گے، جو کچھ ہو رہا ہے وہ ٹھیک نہیں، بانی پی ٹی آئی عمران خان کے پاس جائیں اور سمجھائیں، سپیکر قومی اسمبلی واقعے پر ایکشن لیں۔ علاوہ ازیں قومی اسمبلی میں علی محمد خان اور خواجہ آصف کے درمیان شدید جھڑپ بھی ہوئی۔ جس پر پی ٹی آئی رہنماؤں نے احتجاج کیا۔ اسلام آباد پولیس نے تھانہ سنگجانی کے مقدمہ میں بیرسٹر گوہر کو ڈسچارج کر دیا ہے۔ انسداد دہشت گردی عدالت نے تھانہ سنگجانی کیس میں شیر افضل مروت، عامر ڈوگر، زین قریشی، نسیم شاہ،‘ احمد چٹھہ اور دیگر ملزمان کا 8 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا جبکہ شعیب شاہین ایڈووکیٹ کو تھانہ نون میں درج مقدمے میں جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا۔ اسلام آباد پولیس نے دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج مقدمات میں گرفتار شعیب شاہین ایڈووکیٹ اور گرفتار کارکنوں کو انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابوالحسنات کی عدالت میں پیش کیا۔ پراسیکیوٹر راجا نوید نے شعیب شاہین اور دیگر ملزمان کا پندرہ روزہ جسمانی ریمانڈ مانگا۔ 90 روز کا جسمانی ریمانڈ انسداد دِہشت گردی عدالت ایکٹ کے تحت دیا جاسکتا ہے۔ پراسیکیوٹر راجا نوید نے کہا کہ شعیب شاہین کی حد تک کوئی ریکوری نہیں، ان کی ہدایت پر یہ سب کیا گیا ہے اس لئے ریمانڈ مانگ رہے ہیں، شعیب شاہین کے وکلا نے ریمانڈ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں مقدمے سے ڈسچارج کیا جائے۔ عدالت کے استفسار پر بتایا گیا کہ ساٹھ ستر لوگ گرفتار ہوئے ہیں۔ عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ سناتے ہوئے شعیب شاہین ایڈووکیٹ کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم سنایا۔ دریں اثناء چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے رہائی کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پیر کا دن ملک کا سیاہ دن تسلیم کیا جائے گا۔ اتوار کے روز نقاب پوش ایوان میں داخل ہوئے۔ ہمارے 10 اکان اسمبلی کو گرفتار کیا گیا۔ میں خود باہر آیا اور گرفتاری دی‘ ہم مزاحمت کرتے ہیں نہ کبھی کی ہے۔ مجھے پتہ چلا تھا کہ اسمبلی کے باہر پولیس کی بھاری نفری موجود ہے۔ کیا جلسہ شادی ہال میں تھا کہ 7 بجے ختم کر دیتے؟ سختیاں ہمارے ساتھ ہوئیں‘ ماؤں‘ بہنوں کی چادریں کھینچی گئیں‘ ہمارے کاروبار تباہ ہوئے‘ کون سی دنیا میں ایسا ہوتا ہے کہ جلسہ لیٹ ہو جائے تو مقدمات درج کئے جائیں۔ ہماری حکومت آئے گی تو ہم این آر او کے قانون کو ریورس کریں گے۔ پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کے جسمانی ریمانڈ کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ ہمارا جلسہ شیڈول کے مطابق ہو گا۔ جلسوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ ارکان کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ یہ پارلیمان پر حملہ ہے۔ پارلیمان کے اندر کوئی گرفتاری نہیں ہو سکتی۔ سپیکر پر لازم ہے کہ اس پر کارروائی کریں۔ دریں اثناء تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف تھانہ سنگجانی میں ایک اور مقدمہ درج کر لیا گیا۔ مقدمے میں انسداد دہشتگردی سمیت دس دفعات کو شامل کیا گیا ہے۔ مقدمے میں وزیراعلیٰ خیبر پی کے علی امین گنڈا پور‘ عامر مغل‘ خالد خورشید‘ شیر افضل مروت‘ زرتاج گل‘ فیصل چودھری‘ علی بخاری‘ عمر ایوب‘ عالمگیر‘  نعیم حیدر پنجوتھا‘ شیخ وقاص اکرم‘ شعیب شاہین‘ زین قریشی‘ حامد رضا‘ فیصل امین گنڈا پور‘ شیخ بلال اعجاز نامزد ہیں۔ علاوہ ازیں راولپنڈی میں پولیس کی جانب سے سابق صوبائی وزیر راجہ بشارت اور پی ٹی آئی کے رہنما شہریار ریاض کی گرفتاری کے لیے ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔ پولیس نے  راجہ بشارت کی رہائش گاہ دھمیال ہاؤس میں چھاپہ مار کر گھر کی تلاشی لی۔ اس موقع پر راجہ بشارت گھر پر موجود نہیں تھے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما شہریار ریاض کی گرفتاری کے لیے پولیس نے رات گئے پشاور روڈ پر واقع ان کے گھر پر چھاپہ مارا۔ پولیس کے چھاپے کے دوران پی ٹی آئی رہنما شہریار ریاض بھی اپنے گھر پر موجود نہیں تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی علی محمد خان نے کہا ہے کہ پارلیمان کے اندر جو کچھ بھی ہوا وہ جمہوریت پر حملہ ہے، رات کے اندھیرے میں بتیاں بند کے کے نقاب پوش ارکان پارلیمنٹ کو اٹھا کر لے گئے۔ آپ کی کرسی کو سٹینڈ لینا ہو گا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر گفتگو کرتے ہوئے علی محمد خان نے کہا کہ نو مئی پر جوڈیشل کمیشن بنائیں کیونکہ وہ پاکستان پر حملہ تھا تو کل بھی امانت میں خیانت ہوئی ہے، پاکستان کی سالمیت پر حملہ ہوا ہے، پارلیمنٹ اپنی ڈیوٹی نبھائے، نو مئی بھی غلط تھا اور کل جو کچھ ہوا وہ بھی غلط ہے۔ صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ میں نے ہمیشہ اخلاقیات کو مدنظر رکھا ہے، میں پارلیمنٹ سے باہر تھا لیکن اپنے ساتھیوں کے لئے یہاں آیا، ہم پر کوئی مقدمہ بھی نہیں تھا، نقاب پوشوں کی گاڑیاں پارلیمنٹ میں داخل ہوئیں‘ ارکان کو گردن سے پکڑ کر گاڑی میں پھینکا گیا۔ علی گوہر  گرفتاری دینے کے لئے باہر نکلے تو ان کو کالر سے پکڑا گیا، ایوان کا تقدس پامال ہوا ہے، اگر میں نے کوئی جرم کیا ہے تو مجھے خود سارجنٹ ایٹ آرمز سے گرفتار کروا کر جہاں بھیجنا چاہتے ہیں بھیج دیں۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ اس ملک میں بڑی مشکل سے جمہوریت بحال ہوئی، سب نے مشکلات دیکھیں، آئین کی بالادستی کے لئے پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے معاہدہ بھی کیا۔ غیرجمہوری قوتوں کی لڑائی پہلے بھی ہوتی رہی ہے لیکن کل جو کچھ ہوا اس کی مثال نہیں ملتی، ہم سب نے آئین کے تحفظ کا حلف لیا ہے، سپیکر کا امتحان ہے، پیپلزپارٹی کا امتحان ہے اور ن لیگ کا بھی امتحان ہے، ہمارا تو اعلان ہے کہ جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کی لڑائی میں ہم جمہوری قوتوں کے ساتھ ہیں۔ ہم کسی کو بھی آئین پامال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اپوزیشن رکن اسمبلی حمید حسین نے کہا کہ آئین پاکستان پر شبخون مارا گیا، آئین کی دھجیاں اڑائی گئیں، ایم این ایز سے جانوروں جیسا سلوک کیا گیا، پارلیمنٹ ہائوس میں ارکان کی توہین کی گئی، وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ جو اپنے لیڈر کو چھڑانے نکلے تھے وہ خود بند ہو گئے، انہوں نے سیاست میں غلط روایت ڈالی، انہیں سمجھاتے تھے کہ سنبھل کر چلیں، نفرت کے بیج انہوں نے بوئے ہیں اور فصل بھی یہی کاٹیں گے۔ ایوان میں اپنی دائیں جانب سنسان نشستیں دیکھ کر حیران ہوں کہ واقعہ کے بعد انہیں ایسا سانپ سونگھ گیا کہ تین چار لوگوں کے علاوہ کسی نے یہاں آنے کی جرات تک نہیں کی۔ ہم انہیں سمجھاتے تھے کہ سنبھل کر چلیں، تھوڑا سا خوف خدا رکھیں۔ استدعا کی کہ شہباز شریف صاحب کی والدہ انتقال کر گئی ہیں، آج جرح نہ کی جائے لیکن کہا گیا کہ جرح ہر صورت ہوگی۔ شہباز شریف کی والدہ کی میت گھر پر پڑی تھی اور چار گھنٹے کیس کی کارروائی چلی۔ ایک نام نہاد وزیراعلی نے جلسے میں اداروں کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی، ان کے صوبے میں دہشت گردی پنپ رہی ہے، جنوبی خیبر پختونخوا کے اندر روز دھماکے اور حملے ہو رہے ہیں اور انہیں فکر ہی نہیں ہے۔ یہ لشکر کشی کس بات کی ہے، ان کی ساڑھے 12 سال سے خیبر پختونخوا میں حکومت ہے، آپ خیبر پختونخوا میں پی کے ایل آئی اور راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی جیسا ایک ہسپتال دکھا دیں، دانش سکول جیسا کوئی ایک سکول دکھا دیں، ان لوگوں نے سرکاری فنڈز بھی اپنی ذاتی تشہیر کے لئے استعمال کئے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا پہلی مرتبہ دیکھا ہے کہ یہ اپنے لیڈر کو چھڑوانے آئے اور خود بند ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پہلے بھی ان کو سمجھاتے تھے کہ نفرت اور انتقام کی سیاست مت کریں، یہ بیج انہوں نے خود بوئے ہیں، فصل بھی یہی کاٹیں گے، تب بھی انہیں کہا تھا کہ سنبھل کر چلیں لیکن انہیں ہماری بات سمجھ نہیں آئی تھی۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے اس موقع پر ایک شعر بھی پیش کیا کہ دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے، اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کر گھر جانا ہے۔ دریں اثناء قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کی بندش کا فیصلہ نہیں ہوا، شراکت داروں کی مشاورت سے اس ادارے کی ری سٹرکچرنگ کی جائیگی۔ منگل کو قومی اسمبلی میں پی ڈبلیو ڈی اور یوٹیلیٹی سٹورز کی بندش سے ملازمین کے بے روزگارہونے سے متعلق آصفہ بھٹو زرداری، سیدنویدقمر، راجہ پرویزاشرف اوردیگر کے توجہ دلائو نوٹس پر وفاقی وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے کہا کہ یوٹیلیٹی سٹورز کو بند نہیں کیاجارہا، میں نے پہلے بھی وضاحت کی ہے کہ صرف ادارے کی ری سٹرکچرنگ کی جارہی ہے، ملازمین کا مکمل تحفظ کیا جائیگا۔ انہوں نے کہاکہ ری سٹرکچرنگ میں ملازمین کے نمائندوں سمیت تمام متعلقہ شراکت داروں سے مشاورت کی جائیگی۔یوٹیلیٹی ضروری ادارہ ہے اور اہم خدمات سرانجام دے رہاہے۔ ایس او ایز آر ڈیننس میں واضح ہے کہ ضروری اداروں کی نجکاری یا اسے بند نہیں کیاجائیگا۔ علاوہ ازیں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے پی ٹی آئی ارکان پارلیمنٹ کی گرفتاری کے معاملہ پر سارجنٹ ایٹ آرمز کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی بنا دی۔ ذرائع کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی 48 گھنٹے میں رپورٹ پیش کرے گی۔ کمیٹی پارلیمنٹ ہاؤس کے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج بھی دیکھے گی۔ موقع پر موجود گواہان کے بیانات بھی لئے جائیں گے۔ کمیٹی کی سفارشات پر کسی بھی ملوث فرد کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔

ای پیپر-دی نیشن