• news

چارٹر آف پارلیمنٹ: حکومت، اپوزیشن18 رکنی کمیٹی قائم

اسلام آباد (وقائع نگار+ نوائے وقت رپورٹ) پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آئین کی بالادستی کے بغیر پارلیمنٹ سمیت کوئی ادارہ نہیں چل سکتا، سیاست اپنی جگہ لیکن ہمیں ورکنگ ریلیشن شپ رکھنا ہے، ایوان کے اندر ہمیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، حکومت کا کام آگ بجھانا ہے، مزید آگ لگانا نہیں، اپوزیشن کا بھی یہ کام نہیں کہ ہر وقت گالی دے۔ قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئین کی بالادستی کے بغیر پارلیمنٹ سمیت کوئی ادارہ نہیں چل سکتا، سیاست اپنی جگہ لیکن ہمین ورکنگ ریلیشن شپ رکھنا ہے۔ ہمیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں۔ اگر ہم آپس کی لڑائی میں لگے رہے تو ملک کیسے آگے بڑھے گا۔ اگر حکومت کا کردار یہ ہے کہ عمران خان نے ہمیں جیل میں بند کیا تھا، اب ہم نے پتھر کا جواب پتھر سے دینا ہے تو ایک دن کے لیے ہم خوش ہوں گے لیکن کل میں اور آپ اسی جیل میں ہوں گے، جب عمران خان وزیراعظم تھے تو میری ان سے صرف اتنی مخالفت تھی کہ جس سسٹم کے لیے میرے خاندان نے قربانیاں دی ہیں، وہ چلے، اسی وجہ سے بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے میثاق جمہوریت کیا، 18ویں ترمیم کی، این ایف سی ایوارڈ منظور کرایا۔ پہلے چیف الیکشن کمشنر حکومت کی مرضی سے ہوتا تھا، ہماری ترمیم کے بعد اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم کی مشاورت کے بعد تعینات ہوتا ہے، عبوری حکومت میں اپوزیشن، وزیر اعظم کی مشاورت اور پبلک اکائونٹس کمیٹی اپوزیشن کو دینے سمیت یہ تمام چیزیں ہم نے کروائیں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کسی نے میرے والد، والدہ کو جیل میں ڈالا، یا آپ کے رہنما چند مہینے کے لیے جیل میں ہیں، آپ ان کا کیس ہر سطح پر لڑیں لیکن یہاں آکر عوام کی خدمت کریں۔ الیکشن مہنگائی کے نکتے پر لڑا، جہاں مناسب سمجھا تنقید کی، لیکن وقت آگیا ہے کہ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیں۔ وزیر اعظم، ان کی معاشی ٹیم کی کارکردگی کے بارے میں اس ایوان کو بتانا چاہوں گا کہ 8مہینے پہلے مہنگائی کی شرح کیا تھی، حکومت نے اپنے لیے بجٹ میں ہدف 12 فیصد لانے کا رکھا تھا، ابھی سال بھی پورا نہیں ہوا اور مہنگائی کی شرح 9.6 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ جہاں ہم، حکومت کے اپنے اراکین اور اپوزیشن کے اراکین حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے آر ہے ہیں، وہیں اس بات پر تعریف کرنی چاہیے کہ مہنگائی کم ہو رہی ہے اور مزید کمی کے لیے تجاویز دینی چاہیے اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے حکومت کی آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کو نقصان پہنچے۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ کچھ ویڈیو ثبوت سامنے آئے ہیں کہ ارکان کو ایوان کے اندر سے نہیں اٹھایا گیا، جو سپیکر آفس میں موجود ہیں۔ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ پورا ایوان سپیکر کے پیچھے کھڑا ہے۔ وفاقی وزیر عطاء اللہ تارڑ کی تقریر کے دوران پی ٹی آئی ارکان نے شور شرابہ کیا۔ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی نے گرفتار ارکان کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کردیا۔ بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ جب تک ہمارے ساتھیوں کو رہا نہیں کیا جاتا ہمارے نو دس ایم این ایز کے سوا کوئی ایوان میں نہیں آئے گا۔ قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ دس ستمبر کا دن پارلیمان کیلئے سیاہ دن ہے، پارلیمان کو آئین نے ذاتی محافظ سارجنٹ ایٹ آرمز دئیے گئے گئے ہیں، نقاب پوش آئے، انہوں نے دروازے کھلوائے اور ہمارے دوستوں کو اٹھایا گیا۔ میں مذاکرات کا قائل ہوں لیکن اسے کمزوری نہ سمجھا جائے، آپ کے ایوان پر بڑا ڈاکا ڈالا گیا ہے، ہماری بہن سیمابیہ کے خلاف پرچہ ہوا ہے، ہم آپ کی خواتین کے خلاف پرچہ دے سکتے ہیں لیکن ایسا کرنے سے ریاست کو نقصان ہوگا۔ علی محمد خان کا کہنا تھا کہ کسی نے بھاگ کر ایوان میں پناہ نہیں لی، ہماری استدعا ہے کہ اراکین کو اجلاس میں پیش کریں، یہ پارلیمان کی بے توقیری ہوئی اس کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔ پیپلز پارٹی کے رکن خورشید شاہ اپوزیشن کے حق میں کھڑے ہوگئے، پی ٹی آئی نے ڈیسک بجائے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر ایاز صادق کے زیر صدارت شروع ہوا۔ اپوزیشن ارکان نے بات کرنے کی اجازت مانگی تاہم نہ ملی۔ پی ٹی آئی رہنماؤں نے اظہار خیال کا موقع نہ ملنے پر احتجاج کیا اور گرفتار اراکین اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کے نعرے لگائے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی ارکان بولنے کی اجازت مانگ رہے ہیں تو انہیں بولنے دیں، پی ٹی آئی والے بھی ایوان کاحصہ ہیں انہیں بھی بولنے دیں۔ خورشید شاہ کی اس بات پر پی ٹی آئی نے ڈیسک بجائے۔ علاوہ ازیں سپیکر قومی اسمبلی نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان میثاق پارلیمنٹ کی تجویز دے دی۔ قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت ہوا۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق بلاول بھٹو کی تجویز پر چارٹر آف پارلیمنٹ بنانے کی قرارداد منظور ہو گئی۔ عطا تارڑ نے تائید کی۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جو واقعہ ہوا ہے اس کی تہہ تک جانے کی کوشش کروں گا، ہماری لیڈرشپ چاہے یا نا چاہے کیا ہم پارلیمنیٹرین کوئی چارٹر آف پارلیمنٹ سائن نہیں کرسکتے، جو میں کرسکتا تھا میں نے کیا، میں نے سارجنٹ ایٹ آرمز کو معطل کیا کہ انہوں نے ان لوگوں کو کیوں نہیں روکا جو پارلیمنٹ میں آئے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اگر پارلیمنٹ میں ریڈ لائن کراس ہوئی تو جلسے میں کئی لائنیں کراس ہوئیں۔ قومی اسمبلی اجلاس میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ کو اپنے قائد عمران خان کے کیسز سے اختلاف ہوگا، آپ عدالتوں سے رجوع کریں، احتجاج کریں مگر ریڈ لائن کراس نہ کریں جو اس ملک کی وحدت کی لائنیں ہیں، جمہوریت پر حملہ نہ کریں، جلسے میں یہ کیا کہا کہ پندرہ دن میں جیل سے عمران خان سے چھڑا لیں گے؟ آپ کو عدالت جانا چاہیے۔ نوازشریف، آصف زرداری کی ہمشیرہ، میں خود گرفتار ہوا مگر کبھی ہمارے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہوئے، مگر گرفتار پی ٹی آئی رہنمائوں کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلی کے پی کے نے جو تقریر کی تو یہ واقعہ ہوا، آپ جب ریاست کو چیلنج کرتے ہیں، آپ لشکر لے کر جائیں گے ایک صوبے کی جیل کی طرف، یہ باتیں جمہوریت کیلئے خودکشی کے مترادف ہیں۔ بانی پی ٹی آئی گرفتار ہیں تو ہماری لیڈرشپ بھی گرفتار رہی ہے۔ سسٹم کو بچانے کے لیے نواز شریف بائیس یا چوبیس ماہ قید میں رہے۔ ہماری اور پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ جیلوں میں قید رہی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ اکتوبر کا نام لے کر اپوزیشن کے لوگوں نے امید باندھ رکھی ہے۔ میں نے 34سال اس ایوان میں گزارے ہیں، جو تلخی اس وقت ایوان میں دیکھی ہے وہ تاریخ میں نہیں دیکھی، سپیکر صاحب! ہائوس کو چاہیے معاملہ آپ کے سپرد کردیا جائے۔ جس دن یہ ہائوس ڈس رپٹ ہوا اس دن مایوسی ہوگی۔
اسلام آباد (وقائع نگار+ خبر نگار+نوائے وقت رپورٹ) پارلیمنٹ کی کارروائی چلانے کیلئے کمیٹی بنانے کی قرارداد منظور‘ اجلاس کے دوران سپیکر قومی اسمبلی نے میثاق پارلیمنٹ کی تجویز دی۔ ایاز صادق نے کہا کہ کیا ہم بیٹھ کر چارٹر آف پارلیمنٹ سائن نہیں کرسکتے؟۔ جماعتیں اکھٹی بیٹھیں یا نہیں لیکن ارکان کو تو ساتھ ہونا چاہیے، جو میں کرسکتا تھا وہ میں نے کیا۔ سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اپنے دور میں ارکان اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے، حکومت پر تنقید ضرور کریں لیکن ذاتیات پر مبنی نہ ہوں، حزب اختلاف کو ایوان میں بولنے کا زیادہ موقع دیا، ایوان کو خوش اسلوبی سے چلانے کیلئے مشاورت سے آگے بڑھنا ہوگا۔ اجلاس کے دوران وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے پارلیمنٹ کی کارروائی چلانے کے لیے قومی اسمبلی میں  اراکین پر مشتمل کمیٹی بنانے کی قرارداد پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ علاوہ ازیں قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے تحریک انصاف کے گرفتار ارکان قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیے۔ ایاز صادق نے پی ٹی آئی کے دس گرفتار ارکان کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے۔ شیر افضل مروت، عامر ڈوگر، احمد چٹھہ، زین قریشی، زبیر خان، وقاص اکرم، اویس حیدر، احد علی شاہ، نسیم علی شاہ اور یوسف خان کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے گئے۔ پروڈکشن آرڈر میں حکم دیا گیا ہے کہ پولیس گرفتار ممبران کو اجلاس شروع ہونے سے قبل سارجنٹ ایٹ آرمز کے پاس پہنچائے۔ اجلاس ختم ہونے کے بعد ارکان کو پولیس کی تحویل میں واپس دیدیا جائے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے بھی تصدیق کی اور کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی نے پی ٹی آئی کے گرفتار ایم این ایز کے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیے اور تمام ارکان کل ایوان میں آئیں گے۔ دوسری جانب سپیکر قومی اسمبلی نے 9 ستمبر کے واقعہ کی تحقیقات کیلئے 4 رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنا دی جس کی سربراہی ایڈیشنل سیکرٹری کریں گے اور کمیٹی میں جوائنٹ سیکرٹری ارشد علی، رضوان اللہ شامل ہیں۔ ذرائع نے بتایاکہ کمیٹی میں قائم مقام سارجنٹ ایٹ آرمز راجہ فرحت عباس بھی شامل ہیں۔ دریں اثناء سپیکر ایاز صادق نے اراکین کی پارلیمنٹ ہائوس سے گرفتاری کے معاملے کی تحقیقات کے لیے وفاقی وزارت داخلہ کو خط لکھ دیا۔ سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے وفاقی وزارت داخلہ کو لکھے گئے خط میں پارلیمنٹ ہائوس سے پی ٹی آئی اراکین کی گرفتاریوں کے حوالے سے تحقیقات کی ہدایت کی گئی ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے وزارت داخلہ سے مذکورہ تحقیقات کی رپورٹ 7روز میں طلب کرلی ہے اور ہدایت کی ہے کہ تحقیقات کے حوالے سے وزارت داخلہ سپیکر قومی اسمبلی کو بھی آگاہ کرے۔ دوسری جانب وفاقی وزارت داخلہ میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیے جانے کے حوالے سے مشاورت کا عمل جاری ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق  سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے پارلیمانی بزنس میں اتفاق رائے کے لیے حکومت اور اپوزیشن ارکان پر مشتمل خصوصی کمیٹی تشکیل دے دی۔ 18 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی پارلیمانی بزنس کے مسائل کو حل کرنے کے لیے متفقہ لائحہ عمل بنائے گی۔ کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے اراکین اسمبلی کو برابر تعداد میں شامل کیا گیا ہے۔ 18 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں اسحاق ڈار، خواجہ آصف، خورشید شاہ، خالد مقبول صدیقی ، امین الحق، چوہدری سالک، عبدالعلیم خان شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اعجاز الحق، خالد مگسی، صاحبزادہ حامد رضا، بیرسٹر گوہر، شاہدہ بیگم، اختر مینگل، حمید حسین، محمود خان اچکزئی بھی کمیٹی کا حصہ ہیں۔ نوٹیفکیشن کے مطابق وزیر پارلیمانی امور بھی کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔

ای پیپر-دی نیشن